Maktaba Wahhabi

18 - 71
ایسے ننگ ِملت، ننگ ِدین افراد بھی ہیں جو’عالم دین‘ کہلاتے ہیں مگر ان کی تمام تر توانائیاں اہل دربار کی خوشنودی کے حصول میں صرف ہوتی ہیں ، کچھ ایسے بے ضمیر’مذہبی دانشور‘ بھی ہیں جنہوں نے ابتلا کی اس گھڑی میں مسلمانوں کے دکھ میں شریک ہونے کی بجائے افغانستان پر امریکی حملے کو ’جائز‘ قرار دیا۔ وہ تو پہلے بھی ساقط الاعتبار تھے اور آئندہ بھی مسلمانوں کے دلوں میں ان کے بارے میں حقارت اور نفرت کے جذبات پیدا ہوں گے ، مگر انہوں نے اس طرح کے دل آزار بیانات دیکر اپنی اصلیت اور خبث ِباطن کو ظاہر کر دیا ہے ۔ایک پیر صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم طالبان کی حمایت نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ’دیوبندی‘ ہیں ، ایک اور ’دانشور‘ جو اسلامی شریعت کو یونانی اشراقیت کے آئینے میں دیکھتے ہیں ، نے کہا :”افغانستان پر امریکی حملہ دہشت گردی نہیں ہے۔“ (۱۴) ابتلا اور آزمائش کی اس گھڑی میں مسلمانوں کو حوصلہ بلند رکھنا چاہیے ۔قرآن میں ارشاد ہے ”نہ کم ہمتی کا مظاہرہ کرو، نہ ہی رنج وغم میں مبتلا ہو۔اگر تم ایمان پر قائم رہے تو (بالآخر) تم ہی غالب رہو گے۔“ عارضی شکست سے مسلمانوں کودل برداشتہ نہ ہونے کی تلقین فرمائی گئی۔غزوۂ اُحد کے بعد جب مسلمان حزن وملال اور غم کی کیفیت کا شکار تھے تو اللہ کی جانب سے انہیں اس طرح حوصلہ دیا گیا، فرمایا: ”اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو تمہارے دشمنوں کو بھی توایسا ہی زخم لگا تھا۔ اور ان دنوں کو ہم لوگوں کو مابین اَدلتے بدلتے رہتے ہیں تا کہ اللہ ظاہر کر دے کہ کون واقعی صاحب ِایمان ہیں اور تم میں سے کچھ کو شہادت کے مقام پر بھی فائز کر دے۔ اور یقینا اللہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا اور یہ اس لیے ہے تا کہ اللہ اہل ایمان کو (منافقت سے )بالکل پاک کر دے۔اور بالآخر کافروں کو نیست ونابود کر دے“ (آل عمران :۱۳۹،۱۴۱) سقوطِ کابل کے بعد مسلمانوں کا دل گرفتہ ہونا فطری امر ہے۔ پورے عالم اسلام پر رنج والم کی کیفیت طاری ہے۔ مگر مسلمان شب ِ ظلمات میں بھی تو سحر کا امکان دیکھتے ہیں !!مسلمانوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ان کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔ان شاء اللہ بقولِ اقبال : اگر افغانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا ! (محمد عطاء اللہ صدیقی)
Flag Counter