بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکرونظر سقوط کابل ، طالبان اور پاکستان ایک فرد کی مزاحمت مہلک امراض کے جراثیم کے خلاف ہو یا ایک قوم کی مزاحمت طاقتور قوم کے مہلک ہتھیاروں کے خلاف، اس کی بہرحال ایک حد ضرور ہوتی ہے۔ طالبان جس قدر بھی قوتِ ایمانی سے سرشار ہوں یا بقول ایک امریکی جرنیل کے جس قدر بھی ’سخت جان‘ ہوں ، مگر جب ارضِ افغانستان کا چپہ چپہ کارپٹ بمباری سے اُدھیڑا جارہا ہو، جب شہری آبادیوں پر پندرہ پندرہ ہزار پاؤنڈ وزنی مہلک ترین ڈیزی کٹر جیسے بم گرائے جارہے ہوں ، جب بمبار طیاروں کی بمباری چوبیس گھنٹے کے دوران کسی بھی وقت سانس نہ لینے دے تو پھر محض چند غیر موٴثر طیارہ شکن توپوں کے سہارے شہروں اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے لئے مورچے سنبھالے رکھنا کسی بھی طور دانش مندانہ عسکری حکمت ِعملی نہیں ہوسکتی۔ تزویراتی پس قدمی ۹/ نومبر کو جب امریکی طیاروں کی بمباری کے سائے میں شمالی اتحاد کی اَفواج مزار شریف میں داخل ہوئیں ، تو صاف نظر آرہا تھا کہ طالبان کابل پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ ۱۲/نومبر کی رات کو بالآخر طالبان افواج نے تزویراتی پس قدمی Tactical Retreatکی حکمت ِعملی اپناتے ہوئے کابل خالی کردیا۔ طالبان کے کابل کے منظر سے یوں مزاحمت کئے بغیر اچانک غائب ہونے پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے، مگر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ کافی پہلے کرلیا تھا۔ جیسا کہ گورنر ِقندھار ملا حسن ربانی نے کہا ہے کہ ”طالبان نے اپنی حکمت ِعملی کے تحت کابل شہر کو ایک ماہ قبل خالی کررکھا تھا اورامریکی جہاز خالی مورچوں پر بم برسا کر تباہی کے جھوٹے دعوے کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی راز داری کی انتہا ہے کہ ایک ماہ کے دوران امریکہ کے جدید مواصلاتی نظام کو پتہ نہ چل سکا کہ ہم نے کابل شہر کی حفاظت کے لئے معمولی تعدادمیں طالبان چھوڑ رکھے تھے جبکہ باقی طالبان فوجی اور عسکری سازوسامان پہاڑوں پر محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکے تھے۔“ (نوائے وقت: ۱۸/ نومبر) پاکستان میں افغانستان کے نائب سفیر نے کابل خالی کرنے کے ایک دن بعد بیان دیا: ”پسپائی حکمت ِعملی کے تحت اختیار کی، کابل سمیت تمام علاقے شوریٰ کے حکم پرخالی کئے تاکہ |