مزاحم بنے ہوئے ہیں ۔وزیر داخلہ معین الدین حیدر کا جو بیان 11 جون 2000ء کو نیویارک میں چھپا،اس میں مبینہ طور پر انہوں نے کہا کہ وہ ایسے دینی مدارس پر پابندی عائد کردیں گے جومغرب کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں ۔پاکستان میں این جی اوز کا نیٹ ورک دینی مدارس کو بدنام کرنے کی گھٹیا مہم شروع کئے ہوئے ہے۔اب اگر یہ صورت ہے تو سیکولرازم کے نفاذ کے بعد سنگین صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔مصطفیٰ کمال اتاترک نے خلافت کاخاتمہ کرتے ہی دینی مدارس پر پابندی عائد کردی تھی۔ 6۔سیکولرازم میں کسی ایسے نظام تعلیم کو برداشت نہیں کیاجاتا جس میں مذہبی تعلیمات کا ذکر ہو، پاکستان کے موجودہ نظام تعلیم میں ایک خاص تناسب سے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کو مختلف درجات میں نصاب کا حصہ بنایا گیاہے۔اگر پاکستان کو خدانخواستہ سیکولر ریاست بننے دیا گیا تو یہاں کا نظام تعلیم یکسر لادینی اور مذہبی دشمن ہوجائے گا۔اسلامیات اور مطالعہ پاکستان جیسے مضامین کو شامل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔تعلیمی اداروں کا ماحول لبرل اور ماڈرن ہوجائے گا۔یونیورسٹیوں میں ہی نہیں بلکہ کالجوں میں بھی مخلوط تعلیم کو رائج کردیا جائے گا۔تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے گا۔یہ بات تو پہلے ہی یونیسکو کے پروگرام میں شامل ہے۔موسیقی اور لہوولعب کے پروگراموں کے تعلیمی اداروں میں انعقاد پر کسی قسم کی قد غن نہیں ہوگی۔کسی ایسے فرد کو تعلیمی اداروں میں ملازمت نہیں ملے گی جو سیکولرازم پر یقین نہ رکھتا ہو۔مصر کی سیکولر حکومت نے طالبات پر پابندی لگادی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں سکارف اوڑھ کر نہیں جاسکتیں ۔پاکستان کے لادینیت پسند ان سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ آزادانہ اختلاط کی وجہ سے نوجوان نسل میں جنسی بے راہ روی فروغ پائے گی۔پاکستان جیسی اسلامی مملکت میں خداوہ دن نہ دکھائے جب تعلیمی اداروں میں نے نکاحی مائیں زیر تعلیم ہوں جیسا کہ جدید یورپ میں ہورہاہے۔ 7۔پاکستان میں این جی اوز نے عورتوں کے حقوق کے نام پر پہلے ہی فتنہ کھڑا کررکھا ہے۔سیکولرازم کے نفاذ کے بعد پاکستانی خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر جائے گا۔پاکستان میں طلاقوں کی شرح میں ہوش ربا اضافہ ہوجائےگا۔لبرل عورتیں یورپ کی طرح کھل کھلا اپنے آشناؤں کے ساتھ میاں بیوی کی حیثیت سے رہنا شروع ہوجائیں گی اور قرآن وسنت کی رُو سے ان پر گرفت نہیں کی جاسکے گی۔این جی اوز خواتین کے لیے ہر وہ حق مانگ رہی ہیں جس میں ان کی آزادانہ مرضی کو دخل ہو۔یورپ کی عورتوں نے اسی آزادانہ مرضی کا حق استعمال کرتے ہوئے ہم جنس پرستی کو بنیادی حقوق میں شامل کروالیا ہے۔ازدواجی عصمت دری کی سزا بھی نافذکی گئی،تو کئی شوہروں کو جیل کی ہواکھانی پڑے گی۔خواتین جب چاہیں گی،مردوں کو طلاق دے کر نئی منزلوں کا سفر اختیار کرلیں گی۔سیکولر ازم کے نفاذ کے بعد پاکستان میں گھریلو زندگی کانقشہ یکسر بدل جائے گا۔اسقاط حمل کی اجازت کی وجہ سے جنسی بے راہ روی کا سیلاب آجائے گا۔ |