رہتا ہے لیکن اگر اس پر توجہ نہ دی جائے تو پھر اچانک اس کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں ۔ اور مریض آناً فاناً موت کے اندھے غار میں غائب ہو جا تا ہے اس کے عز یز و اقارب بے بسی سے اپنی آنکھوں کے سامنے اس کی اس جہان فانی سے رخصتی کا ہو لناک منظر دیکھتے رہ جاتے ہیں یہی مثال معاشروں کو لگے ہوئے سیکولرازم کے سر طان پر بھی صادق آتی ہے مغربی معاشرہ اپنی تباہی کے آخری دہانے پر ہے اس تباہی کے پس پشت اگر غور کیا جا ئے تو اس کا سبب سیکولرازم کا سر طان ہی ہے مغربی دانشوروں نے اس فکری سرطان کو آزادیوں کا سر چشمہ سمجھ کر بڑھنے دیا اس کے علاج کی بات تو ایک طرف وہ اسے مرض سمجھنے کے لیے ہی تیار نہ تھے ۔آج وہ سر پکڑ کر بیٹھےہوئے ہیں اور یہ مرض لاعلاج صورت اختیار کر چکا ہے۔ اگرچہ بیسویں صدی کے آغاز میں جرمن مفکر اوسوالڈ اسپنگلر نے"زوال مغرب " کے عنوان سے اپنی کتاب میں مغرب کے اس مرض کی طرف توجہ دلائی تھی کچھ اور مفکر ین نے بھی مغرب کے بڑھتے ہوئے اخلاقی زوال کے خطرات سے اہل یورپ کو متنبہ کرنے کی کو شش کی مگر ان کی ساری کاوشیں صدا بصحرا ثابت ہوئیں ۔آزادیوں اور جنسی آوارگیوں میں مست مغرب اس طرح کے اہل دانش کو پرانے وقتوں کے لوگ سمجھ کر دھتکارتا رہا اور آج خاندانی نظام کو بچانے کے لیے اہل مغرب بالکل اس طرح کی بے حصول کوششیں کر رہے ہیں جس طرح کہ ایک فزیشن خون کے سرطان کے مریض کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے علاج کا اس مریض کوکو ئی نہیں فائد نہیں ہو گا۔ ممکن ہے بعض حضرات راقم کی طرف سے سیکولرازم کے لیے فکری سر طان کی ترکیب کو قبول کرنے میں تامل کا شکارہوں ۔مگر یورپ و امریکہ میں جنسی ہوسنا کی کی تسکین کے یہ گھٹیا اور عام مناظر بے نکاحی ماؤں کی گود میں حرامی بچوں کی بہاریں خاندانی ادارے کی تباہی الحاد وزندیقیت کا سیلاب حیوانیت و شہوانیت کے ابلتے جذبات عورتوں مردوں میں ہم جنس پرستی جیسے غلیظ رجحان میں روز بروز اضافہ عورتوں میں حیا و شرم کا فقدان نسوانی حقوق کے نام پر بے حیائی کا پر چار مادہ پرستی اور ہوس پرستانہ خود غرضی کے غیر انسانی واقعات سمندری ساحلوں پارکوں اور ائیرپورٹوں پراباحت مطلقہ کی شرمناک حرکات آخر ان سب مظاہر کے اسباب کیا ہیں ۔ہر عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی سوچ کار فرما ہو تی ہے مندرجہ بالا چند اور دیگر جرائم اور قباحتوں کی بنیادی وجہ مغربی معاشرے کی الہامی تعلیمات سے رو گردانی اور سیکولرازم (لادینیت) کی پذئرائی ہے ایسے مظاہر کا ظہور صرف مغربی معاشرے تک ہی محدود نہیں ہے یہ پاکستان جیسے اسلامی معاشرے میں بھی رونما ہو سکتے ہیں اور کہیں کہیں ہو رہے ہیں ہمارے ذرائع ابلاغ سیکولرازم کو جس طرح فروغ دے رہے ہیں اس کے نتا ئج یہاں بھی وہی ہوں گے جو مغرب میں قابل مشاہدہ ہیں ۔ سیکولرازم کے فتنہ کا شکار بعض وہ مسلمان بھی ہیں ،جو اپنے آپ کو"اسلامی مفکر "سمجھنے کی خوش فہمی میں بھی مبتلاہیں یہ لو گ ہیں جن پر اس مرض کا ثر ابھی ابتدائی منزل سے آگے نہیں بڑھتا ۔ یہ اسلام |