بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ فکر و نظر انسانی حقوق کے نام پراتاترک ازم کا نفاذ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے چند ہی دنوں بعد جب مصطفیٰ کمال پاشا المعروف اتاترک (ترکوں کا باپ) کو اپنا قومی ہیرو قراردیا تھا۔ تو اسی وقت ہی دائیں بازو کے اہل بصیرت کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھیں کہ کہیں نواز شریف کی کرپٹ حکومت کے خاتمہ کے بعد برپا ہونے والا فوجی انقلاب درحقیقت لادینی انقلاب کی صورت اختیار نہ کرلے ۔مگر شروع شروع میں فوجی حکومت کا ایک تورعب ودبدبہ ہی اتنا تھا کہ کو ئی ان کے خلاف زبان کھولنے کی جرات نہ کرسکتاتھا دوسرے لوگ نوازشریف کی حکومت کے خاتمے پر ہی اس قدر خوش تھے۔کہ وہ باقی نتائج کے متعلق غور وفکر کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے مذکورہ بیان کے خلاف قاضی حسین احمد کی نحیف سی آواز اٹھی تھی جس میں انہوں نے پاکستان میں کمال ازم کے نفاذ کے خلاف سخت مزاحمت پیش کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تھا ۔اس وقت تو جنرل پرویز مشرف نے بھی وضاحت میں بیان دیا تھا –کہ ان کے بیان کا وہ مقصد نہیں ہے ۔جو سمجھا گیا ہے مگر گزشتہ 6/ماہ کے دوران جنرل پرویز مشرف نے جو اقدامات اٹھائے ہیں ان پر غور کیا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ جوبات انہوں نے اتاترک کے بارے میں کی تھی وہی ان کے دل کی آوازتھی ۔ 21/اپریل2000ء کو انہوں نے انسانی حقوق کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے جو اعلانات کئے ہیں اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اتاترک کو محض اپنا ہیرو سمجھنے پر ہی اکتفانہیں کرتے بلکہ خود اتاترک بننے کے چکر میں ہیں ۔[1]جو بات سابقہ حکومتیں چاہئے کے باوجود نہیں کر سکی تھیں انہوں نے بے حد دھڑلے اس کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ توہین رسالت کے قانون کے تحت کسی شخص کے خلاف اس وقت تک مقدمہ درج نہیں کیا جا ئے گا جب تک اس کے خلاف الزامات کی ضلع کا ڈپٹی کمشز تصدیق نہ کردےگا۔ جب سے تو ہین رسالت کا قانون 295۔سی بنایا گیا ہے اقلیتی طبقہ کے شر پسندوں مغربی تہذیب کی دلدادہ این جی اوز ،امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا تا رہا ہے وجہ یہ بتا ئی جاتی رہی ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے 1994ءمیں بے نظیر |