فکر و نظر بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم عظیم مقابر کی دریافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تعامل سعودی حکومت نے اس قبرستان کو سرکاری تحویل میں لینے کے لئے فوری قدم اُٹھایا ہے جو ایک ہزار برس سے بھی پرانا ہے اور جو حال ہی میں دریافت ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں چوتھے خلیفے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اٹھائیس پوتوں اور نواسوں کے مرقد ہیں۔ یہ قبرستان جدہ سے مدینہ منورہ جانے والی شاہراہ پر اتفاقاً دریافت ہوا اور اسے سعودی عرب کے ایک باشندے نے وہاں سے قدیم زمانے کے مٹی کے ظروف اور دیگر قدیم برتن برآمد کر کے دریافت کیا۔ بارش نے بھی اس سلسلے میں مدد کی اور اوپر کی مٹی بہہ گئی۔ فوراً محکمۂ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو موقع پر بھیجا گیا۔ اب تک (۷۵) مرقد مل چکے ہیں اور ان میں سے (۲۸) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نواسوں اور پوتوں کی قبریں ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے یہ پوتے پڑ پوتے بغداد کے گورنر کے مظالم اور اذیتوں سے عاجز آکر بغداد سے ہجرت کر گئے اور مدینہ جاتے ہوئے راستے میں ایک گاؤں اور اذیتوں سے عاجز آکر بغداد سے ہجرت کر گئے اور مدینہ جاتے ہوئے راستے میں ایک گاؤں میں آباد ہو گئے جس کا نام بعد میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پڑپوتے کے نام پر ’’امام قاسم الروسی‘‘ رکھا گیا۔ اب اس جگہ پر پہرہ متعیّن کر دیا گیا ہے اور اس کی حفاظت کے لئے اس کے گرد دیوار تعمیر کر دی گئی ہے اور اس جگہ ایک مسجد بنا دی گئی ہے تاکہ عقیدت مند وہاں نماز ادا کرنے کے علاوہ قرآن خوانی بھی کر سکیں۔ (نوائے وقت) اب یہ فیصلہ کرنا محکمہ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا کام ہے۔ بھوں نے اس قبرستان کو اپنی تحویل میں لیا ہے، کہ یہ مقابر اور مزارات واقعی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتوں اور پڑپوتوں کا ہے اور اس سلسلہ میں ممکن شہادتیں کیا ان کے سامنے ہیں۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ: ان میں سے بعض قبروں پران کے نام بھی تحریر ہیں (امروز) اور اس قسم کے کتبوں کی شرعی حیثیت کیا ہے، یہ بھی وہاں کے علماء کرام کا کام ہے۔ تاہم ہمارے نزدیک ان مزارات کو |