اس کا اندازہ کچھ وہی کرسکتے ہیں جنہوں نےکبھی یہ کام انجام دیا ہے۔ مگر انڈکس قاری کے لیے ایک ایسی کلید ہے جس سے وہ سینکڑوں صفحات کی کتاب میں اپنے مقصد کی ایک ایک سطر بآسانی دیکھ سکتا ہے۔آقائے تسبیحی نے نفاست ذوق کا ثبو ت دیتے ہوئے اعلیٰ معیار پر کتاب شائع کی ہے ۔ کپڑے کی نفیس جلد نےکتاب کی زینت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ .................................................... (۴) نام کتاب : حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ ترتیب و تدوین : سید ابوبکر غزنوی صفحات : ۴۶۴ طباعت : عمدہ، مجلد مع دیدہ زیب گردپوش قیمت : ۲۰ روپے ناشر : مکتبہ غزنویہ، ۴۔ شیش محل روڈ، لاہور مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ ماضی قریب کے ان بزرگوں میں سے تھے جن کی شخصیت کئی پہلو رکھتی تھی۔ مرحوم بلند پایہ عالم دین ، نڈر او ربے باک سیاسی راہنما، منفرد خطیب اور پختہ کار صحافی تھے۔ زیر نظر تالیف ان کی یاد میں ترتیب دی گئی ہے۔ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اوّل تاثراتی ہے اور اس میں برصغیر پاک و ہند کے معروف اہل قلم او رمولانا کے احبان و تلامذہ نے اپنے مکرم و محترم بزرگ کی یاد تازہ کی ہے۔مقالہ نگاروں میں مولانا محی الدین احمد قصوری رحمہ اللہ ، غلام رسول مہر رحمہ اللہ ، رئیس احمد جعفری رحمہ اللہ ، مولانا مظہر علی اظہر، ابوالحسن علی ندوی، ڈاکٹر سید عبداللہ، مولانا محمد حنیف ندوی، محمد شفیع، آغا شورش کاشمیری، ملک حسن علی جامعی، مولانا محمد داؤد راز، محمد اسحاق بھٹی،ڈاکٹر اسرار احمد اور فضل الرحمٰن سواتی شامل ہیں ۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا مختصر انٹرویو بھی اس حصہ کی زینت ہے۔ یہ مضامین ’’ہر گلے رارنگ و بوئے دیگر است‘‘ کے مصداق دلچسپ اور معلومات افزا ہیں ۔ ان سے مولانا مرحوم کی دلآویز شخصیت، ان کے فکری توازن و اعتدال ، ان کی مجاہدانہ سرگرمیوں ، اُن کے علمی ذوق، عقائد و مسلک میں پختگی او ران کے وسیع حلقہ روابط پر روشنی پڑتی ہے۔ کتاب کا دوسرا حصہ جو نسبتاً طویل ہے۔مولانا مرحوم کے صاحبزادے پروفیسر ابوبکر غزنوی صاحب کے رشحات قلم پر مشتمل ہے۔ یہ حصہ سوانحی اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔ واقعات و حالات زندگی ترتیب سے لکھے گئے ہیں ۔ اگر اس حصہ کے ساتھ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کا مضمون پڑھا |