Maktaba Wahhabi

46 - 46
کچھ اخذ کیا گیا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ عالمی تجارت اور صنعت و حرفت سے جو نئے مسائل پیدا ہوئے تھے ان کے شرعی احکام بھی اس میں شامل تھے۔ الغرض اٹھارویں صدی عیسوی تک ساری دنیا میں جہاں کہیں مسلمانوں کی حکومت تھی۔ وہاں قانون کا سرچشمہ اسلامی شریعت ہی تھی۔ ہندوستان میں جب اسلامی شریعت کے بعض تقاضوں کو سیاسی مصلحت پر قربان کیا گیا تو عالمگیر نے شریعت کا احیاء کیا۔ ترکش مارا خدنگ آفریں۔ فتاویٰ عالمگیری آج بھی قابل قدر کارنامہ ہے۔ اس کا ذکر آچکا ہے کہ کوڈ نپولین اسلامی فقہ سے ماخوذ ہے۔ کیا اسلامی فقہ کی برتری کا یہ اعتراف کافی نہیں؟ پھر آج کیوں ہم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ انگریزی قانون کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا؟ اچھا تو یوں دیکھئے کہ کسی قانون کے اچھا یا برا ہونے کا معیار کیا ہے؟ اچھا قانون وہ ہے جو معاشرے کو جرائم سے پاک رکھے۔ مجرم قرار واقعی اور عبرت آموز سزا سے نہ بچنے پائے۔ انصاف بلا زحمت بلا معاوضہ اور بلا تاخیر ہو کسی کا حق ضائع نہ ہواور کسی کو باطل کی حمایت کی جرأت نہ ہو۔ بڑے سے بڑا مغرب زدہ بھی یہ دعوےٰ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ انگریزی قانون اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ سینٹ جاں فلبی کی کتابیں پڑھیے۔ اس نے یہ نظارہ دیکھا ہے کہ نجد کے قصبوں میں بڑے سے بڑے مقدمے کا فیصلہ آدھ گھنٹہ میں ہو جاتا ہے اور جس کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے وہ بھی مطمئن جاتا ہے کہ انصاف ہوا۔ فریقین از خود اپنا اپنا ثبوت اور اپنے اپنے گواہ لے کر قاضی کے پاس جاتے ہیں۔ قاضی دونوں کی سنتا ہے۔ اپنا فیصلہ دیتا ہے اور دونوں کو سمجھا دیتا ہے کہ اس کا فیصلہ حق ہے۔ مثال کے طور پر آپ کو یاد ہو گا کہ کراچی جیل کے سامنے عین دوپہر کے وقت ایک لڑکی بالجبر اغوا کی جاتی ہے۔ تقریباً سو آدمی اس جرم کے شاہد عینی ہیں۔ اگر اس واقعہ کے ایک گھنٹے کے اندر قاضی موقع پر پہنچ کر شہادت سن لیتا تو وہیں کے وہیں فیصلہ سنایا جا سکتا تھا اور ملزم کے پکڑے جانے کے بعد فوراً ہی اسی جگہ جیل کے سامنے اسے ایسی عبرت ناک سزا دی جا سکتی تھی کہ آئندہ برسوں تک اغواء کا کوئی واقعہ نہ ہوتا۔ اس کے برعکس انگریزی قانون کے تحت کیا ہوا؟ برسوں مقدمہ چلا اور نتیجہ ناگفتنی اور ہاں! ایسے دلاور مجرم کو بھی اپنے دفاع کے لئے وکیل میسر آیا۔ یہ وکالت کا ’پیشہ‘ اور کیلوں کی بے ضمیری جو انگریزی قانون کا جزو لا ینفک ہے۔ اس کی عزت تو اب مسلم ہو چکی ہے۔ اپنے بچپن کی بات مجھے یاد آتی ہے۔ لوگ فتوےٰ پوچھتے پھرتے تھے کہ وکالت کی آمدنی جائز ہے یا ناجائز؟ ایسے لوگ بھی میری نظر میں ہیں جنہوں نے ساری عمر وکالت کی۔ لیکن وکالت کی کمائی سے حج کرنا پسند نہیں کیا۔ باپ کی چھوڑی ہوئی جائیداد بیچ کر یا بیوی کا میکہ سے لایا ہوا زیور بیچ کر حج کیا۔ یہ بات پاکستان کی نہیں جو اسلام کے نام پر قائم ہوا بلکہ اس ہندوستان کی ہے جو انگریز
Flag Counter