البتہ واقعہ میں بچوں کوبھوکاسلانے کے معاملے میں یہ بات یقینی ہے کہ بچوں کاپیٹ بھراہواتھااورجوکھاناان کے لیے رکھاگیاتھاوہ بچوں کی اس عادت کوپوراکرنےکے لیےتھاجوبسااوقات وہ طلب کرتےہیں اس لیے کہ اگربچوں کوبغیرکھاناکھلائے بھوکا سلایاجاتاتویہ عمل قابل تعریف نہیں تھا کیونکہ یہ ہرباپ کی ذمہ داری میں سے ہے اوریہ ذمہ داری مہمان نوازی پرمقدم ہے۔ اللہ تعالیٰ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاان دونوں میاں بیوی کی تعریف کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرچکے تھے۔ بیوی بچوں کےلیے کمانا اوران کے کھانےکابندوبست کرنابھی اجرکاباعث ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صدقہ سے تعبیرکیاہے۔اورجوشخص اس ذمہ داری کوادانہیں کرتااسے گناہ گار شمارکیاگیاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے۔’کفی بالمرءإثماأن یضیع من یقوت‘[1] ترجمہ:’’ انسان اپنےزیرکفالت لوگوں کی کفالت پوری نہ کرے یہی اس کےگناہ کےلیے کافی ہے۔ ‘‘ لہٰذا زندگی میں کوشش کریں کسی لمحہ کیا گیا کوئی عمل اللہ کی مسکراہٹ کا سبب بن جائےاور وہ ہماری کامیابی کا باعث ہو جیسا کہ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے۔ |