Maktaba Wahhabi

114 - 127
’’اندلس کی فوج کشی کے سلسلے میں92 ہجری میںموسیٰ بن نصیر نے فوج روانہ کی اندلس(اسپین)دراصل نہایت سر سبزو شاداب اور دولت مند جزیرہ تھا،اندلس کے باشندوں نے زیادہ مقابلہ نہ کیالیکن سونے چاندی کے زیورات اور ہیرے جواہرات کو باندھ کر سمندر کےحصے میں ڈبودیا تاکہ یہ مسلمانوں کی دسترس میں نہ آئے،قدرت خداوندی سے ایک مسلمان کے نہاتے ہوئے پاؤں سے چاندی کابرتن ٹکڑایا،پھر تلاش کیا تو سارا مال مل گیا۔[1]اسپین کی فتح کے بعد مغربی بحیرہ روم مسلمانوں کے لیے جھیل کی مانند ہوگیا۔یہ یورپ کی تاریخ کا اہم ترین موڑ تھا یہ عہد وسطیٰ کا آغاز تھا۔ سلیمان بن عبدالملک کے دل میں دوبارہ قسطنطنیہ کو فتح کر لینے کی امید پیدا ہوئی،اب تک کی اسلامی تاریخ میں سب سے بڑا لشکر تیار ہوا،ایک لاکھ اسی ہزار کی تعداد میں بحری و بری افواج موجود تھیں،عربوں نے اس سےبڑا لشکر تیار نہ کیا تھا،اللہ کے فیصلوں کو کون پہنچ سکتا ہے۔۔۔۔؟ چنانچہ اس عظیم لشکر کا حال بھی پہلے حملوں سے مختلف نہ تھا،سمندری طوفان سے جہازوں کو نقصان پہنچا۔۔رومیوں نے بلند وبالا فیصلوں سے آتش یونانی سے حملہ کردیا۔ عربوں کے پاس خوراک اور رسد کم ہوگئی۔انہوں نے اپنے جانوروں کا گوشت بلکہ درختوں کی جڑیں اورپتے بھی کھا لیے۔[2] ادھر سلیمان بن عبدالملک کا انتقال ہوگیا،عمر بن عبدالعزیز نے فوراََ یہ پہلا فیصلہ کیا کہ مسلم افواج کو واپسی کا حکم دیا۔اگر شہر فتح ہوتا تو کیا ہوتا؟اس پر جرمن مورخ سونڈرس لکھتا ہے’’مسلم افواج کو شہرنہ فتح کرنے کا شدید صدمہ تھا اگر بحری مجاہدین قیصر کے شہر کو فتح کر لیتے تو بلقان اور یورپ فنا ہوجاتا۔عرب مجاہدین دریائےڈینوب(Danube)میں جہاز رانی کرتے۔اور شاید عیسائیت ایک گمنام فرقے کی مانند جرمنی
Flag Counter