بارہا کے غور و فکر کے بعد بھی ان کی نظرکسی ایک شخص پر جمتی نہیں تھی۔ بارہا ان کے منہ سے ایک بے ساختہ آہ نکل جاتی، افسوس، مجھے اس بار کا کوئی اٹھانے والا نظر نہیں آتا۔ ایک شخص نے کہا:آپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ کیوں نہیں مقرر کر دیتے ؟فرمایا”اے شخص!خدا تجھے غارت کرے، واللہ!میں نے خداسے کبھی یہ استدعانہیں کی۔ کیا میں ایسے شخص کو خلیفہ بنا دوں، جس میں اپنی بیوی کو طلاق دینے کی بھی صحیح قابلیت موجود نہیں ہے۔ اسی سلسلہ میں فرمایا:میں اپنے ساتھیوں کو خلافت کی حرص میں مبتلا دیکھ رہا ہوں۔ ہاں اگر آج سالم رضی اللہ تعالیٰ اور ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ یا ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن جراح زندہ ہوتے تو میں ان کے متعلق کہہ سکتا تھا۔ اس ارشاد مبارک سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو یہ بہت زیادہ پسند تھا کہ انتخاب خلافت کے مسئلہ کو چھوئے بغیراس دنیا کو عبور کر جائیں لیکن مسلمانوں کا اصرار روز بروز بڑھتا چلا گیا۔ آخر آپ نے فرمایا کہ میرے انتقال کے بعد عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عوف اور سعدبن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین دن کے اندرجس شخص کو منتخب کر لیں، اسی کو خلیفہ مقرر کیا جائے۔ سفر آخرت کی تیاری آخری گھڑیوں میں اپنے صاحبزادے عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طلب فرمایا، وہ حاضر ہو گئے تو ارشاد فرمایا:عبداللہ حساب کرو مجھ پر قرض |