بیٹے کو گلے لگالیا ۔اور بوسہ دیا ،پھر فرمایا:”بیٹا اپنا فرض پورا کر دو۔ ‘‘ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت زرہ پہنے ہوئے تھے۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو جب یہ لو ہے کی کڑیاں سی محسوس ہوئیں، تو ان کے دل پر ایک دھچکاسالگا۔ آپ نے تعجب سے فرمایا:”میرے بیٹے !یہ کیا ہے ؟اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے والوں کا یہ طریقہ نہیں ہوتا؟اس پر ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے، زرہ اتار کرجسم سے الگ پھینک دی، اور رجز پڑھتے ہوئے تیغ بکف شامی فوج کی طرف آئے۔ پھر ولولہ اور جوش کے ساتھ حملہ اور ہوئے کہ میدان کانپ اٹھا، چونکہ شامی فوج کی گنتی بے قیاس تھی۔ اس واسطے ان کے ساتھی حملے کی تاب نہ لا کر ادھر ادھر بکھر گئے۔ اس وقت ایک شخص نے پکار کر کہا۔ "اب زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!پیچھے ہٹ کر حفاظت میں چلے آئیے۔ "آپ نے آواز دینے والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا، اور گرجتے ہوئے شیر کی طرح یہ للکارتے ہوئے آگے بڑھے :”میں اس قدر بزدل نہیں ہوں کہ اپنے بہادرساتھیوں کی موت کے بعد خوداسی موت سے بھاگ نکلوں۔ "ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے چندساتھیوں کے ساتھ بپھرے ہوئے شیر کی طرح شامی فوجوں پر حملے کرتے تھے۔ جس طرف تلوار لے کر امنڈتے، صفیں الٹ جاتیں تھیں اور راہیں صاف ہو جاتی تھیں۔ چونکہ آپ کے جسم کو زرہ کی حفاظت حاصل نہ تھی۔ اس لیے بے دریغ تلوار چلاتے جاتے اور جسم کا خون برستے ہوئے بادل کی طرح ٹپکتا جاتا تھا۔ حجاج نے تمام شامی فوج کو حرکت دی۔ اپنے منتخب بہادروں کو آگے بڑھایا اور پھراس قوت و شدت کے ساتھ حملہ کیا کہ شامی فوجیں زور کرتے ہوئے خانہ کعبہ کے دروازوں تک پہنچ گئیں |