ایمان کا ردِعمل بالکل مختلف تھا۔ ارشاد ہے: ﴿ ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ۡ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا 22ۭ﴾[1] (یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اللہ اور اس کے رسول کی بات سچی تھی۔ اس واقعہ نے ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم کو اور بڑھا دیا۔) اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے بغیر جنگ و جدال کے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ نعیم بن مسعود اشجعی درپردہ مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے مختلف قبائل میں ایسی چال چلی کہ ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا۔ ایک دوسرے سے بدگمان ہو گئے اور متحدہ حملہ کا خطرہ ٹل گیا۔ دوسری طرف اللہ نے مشرکین پر ایسی زور کی آندھی چلائی جس نے ان کے خیمے اکھیڑ کر رکھ دیے۔ ہانڈیاں الٹ دیں۔ خیموں کی رسیاںٹوٹ ٹوٹ کرخیمے ان پر گرنے لگے۔ جس سے ان میں سخت بد دلی پھیل گئی۔ اس کے علاوہ اللہ نے فرشتوں کا لشکر بھیج دیا۔ جس نے کفار کے دل میں رعب اور خوف پیدا کر دیا اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اپنا سامان تک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ صحیح بخاری میں سیدنا سلیمان رضی اللہ عنہ بن صرد سے مروی ہے جس وقت اللہ تعالیٰ نے کفار کی فوجوں کو واپس کیا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ’’اب ہم ان سے لڑنے کے لیے ان کے شہروں میں جائیں گے وہ ہم سے لڑنے کے لیے ہمارے شہر میں نہیں آئیں گے۔‘‘ چنانچہ غزوہ بنو قریظہ ‘ غزوہ خیبر‘ جنگ موتہ‘ غزوہ فتح مکہ‘ غزوہ حنین اور غزوہ تبوک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ دشمن پر حملہ کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے ہر میدان میں فتحیاب ہو کر آئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد مدینہ آنے والے وفود کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ ا سلامی لشکر جو فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار سپاہ پر مشتمل تھا۔ اس کی تعداد غزوہ تبوک میں جبکہ ابھی فتح مکہ کو سال بھی نہ گزرا تھا۔ اتنی بڑھ گئی کہ وہ تیس ہزار فوجیوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر |