گرد خندق کھودی گئی۔ صحیح بخاری میں سہیل بن سعد سے مروی ہے۔ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق کھودنے میں مصروف تھے۔ اپنے کندھوں اور کمروں پر اٹھا کر مٹی خندق سے باہر لاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصار و مہاجرین کے لیے توصیفی کلمات کہتے اور دعا فرماتے تھے۔ اللّٰهُمَّ لا عَیْشَ اِلاَّ عَیْشَ الْاَخِرة فَاغْفِرْ الِمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَار الٰہی زندگی درحقیقت آخرت کی زندگی ہے۔ (اس میں کامیابی کیلئے) مہاجرین اور انصار کو بخش دے جبکہ صحابہ کرام ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں کہتے: نحنُ الَّذِیْنَ بایَعُوا مُحَمَّدًا عَلَی الجهادِ مَابَقِیْنًا اَبَداً۔ ہم جب تک زندہ ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر جہاد کرنے کی بیعت کی ہے غزوہ احزاب میں خندق کھودنے کی وجہ سے غزوہ احد جیسا خونی معرکہ تو بپا نہ ہو الیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جس طرح عرب کی اسلام دشمن قوتیں یک جان ہو کر ریاست مدینہ پر حملہ آور ہوئیں۔ اگر غزوہ احزاب میں وہی دو بدو لڑائی کی صورتِ حال پیش آتی تو اس قدر خونریزی ہوتی کہ کشتوں کے پشتے لگ جاتے۔ اس نازک صورتحال کی تصویر کشی خود اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کی ہے: ﴿ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا 10﴾[1] (اس وقت جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں۔ کلیجے منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔) اس غزوہ نے بھی دونوں فریقوں کے ایمان کی اصل حقیقت کھول دی۔ منافقین نے جنگ کی خطرناک صورت حال دیکھ کرکہنا شروع کر دیا۔ ﴿ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا 12﴾[2] (اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدے کیے تھے وہ سب دھوکہ اور فریب تھے۔) مسلمانوں نے جب کفار کے لشکر چاروں طرف سے آتے دیکھے تو ان کے دل بھی کانپ اٹھے۔ کلیجے خوف کے مارے منہ کو آنے لگے۔لیکن اس صورت حال میں بھی اہل |