فرمان ہے : ’’ أيُّما رجلٍ قالَ لأخيهِ كافرٌ، فقد باءَ بِه أحدُهُما ‘‘ متفق علیہ من حدیث ابن عمر۔ [1] (جس کسی نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک اس کے ساتھ لوٹا) کتاب ’’نہایۃ ‘‘ میں ہے ’’باء بھا ای التزمھا ورجع بھا‘‘ اورمصابیح کے بعض نسخوں میں ’’بھا‘‘ کے بجائے ’’بہ‘‘ آیا ہے، اور ضمیر کا مرجع کفر ہے، مطلب یہ ہے کہ اس کلمہ ( یا کافر ) کا مخاطب کافر نہیں ہے، بلکہ اس کا قائل کافر ہو جاتا ہے، یہ وعید ایسی بھاری ہے کہ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں ہے کہ : ’’ لا يَرْمِي رَجُلٌ رَجُلًا بالفُسُوقِ، ولا يَرْمِيهِ بالكُفْرِ؛ إلّا ارْتَدَّتْ عليه إنْ لَمْ يَكُنْ صاحِبُهُ كَذلكَ ‘‘[2] (ایک شخص دوسرے کو فاسق یا کافر ہونے کی تہمت لگاتا ہے، حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ تہمت اسی پر لوٹ آتی ہے) متفق علیہ حدیث (٭) میں حضرت ابو ذر سے بطریق مرفوع مروی ہے کہ: ’’ مَنْ دَعا رجلًا بِالكُفرِ، أو قال عدُوَّ اللّٰهِ؛ وليسَ كذلِكَ، إلّا حارَ عليْهِ ‘‘[3] (جس نے کسی کو کافر کہہ کر پکارا ، یا اس کو اللہ کا دشمن کہا، حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے، تو وہ نسبت وتہمت اسی پر الٹ آئے گی ) اس حدیث میں ’’’دعا‘‘ سے مراد کافر کہنا ہے، اور ’’حار‘‘ کا معنی یہ ہے کہ ’’رجع علیہ ما نسب الیہ‘‘ ( یعنی دوسرے کی طرف کفر یا عداوت کی جو نسبت کی ہے وہ اسی پر الٹ پڑے گی ) |
Book Name | ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع |
Writer | نواب صدیق حسن خاں بھوپالی |
Publisher | مکتبہ الفہیم مئوناتھ بھنجن یوپی انڈیا |
Publish Year | 2009 |
Translator | مولانا محمد اعظمی |
Volume | |
Number of Pages | 146 |
Introduction |