خود عاق می کند والد را، و من عاق را دوست نمی دارم۔
چنانکہ علامہ محمد طاہر فتنی درمجمع بحار الانوار فرمودہ :
’’ویحتمل أنہ استعار العقوق للوالد، وجعل إباء ہ عن العقیقۃ مع قدرتہ عقوقا‘‘ انتھی۔
و شیخ سلام اللہ در محلی شرح موطا امام مالک فرمودہ :
’’ویحتمل أن یکون العقوق في ھذا الحدیث مستعارا للوالد، کما ھو حقیقۃ في حق الولد، وذلک أن المولود إذا لم یعرف حق أبویہ صار عاقا، کذلک جعل إباء ہ عن أداء حق المولود عقوقا علی الاتساع فقال: لا یحب اللّٰہ العقوق، أي ترک ذلک من الوالد مع قدرتہ علیہ، لیشبہ إضاعۃ المولود حق أبویہ ، ولا یحب اللّٰه ذلک‘‘ انتھی۔
سوم آنکہ احتمال دارد کہ سائل سوال کرد از عقیقہ بجہت آنکہ اشتباہ افتاد او را کہ ایا این فعل مکروہ است یا مستحب یا واجب ، واجب دانست کہ بشناسد فضیلت عقیقہ را، پس جواب داد او را رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’لا أحب العقوق‘‘ و متنبہ کرد ازین قول برینکہ ہر کہ موجب غضب باری تعالیٰ است آن عقوق است نہ عقیقہ۔
چنانکہ علامہ علی قاری در مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح فرمودہ:
’’یحتمل أن السائل إنما سألہ عنھا لاشتباہ تداخلہ من الکراھۃ و الاستحباب والوجوب، وأحب أن یعرف الفضیلۃ، فأجابہ بما ذکر تنبیھا علی أن الذي یغضبہ اللّٰه تعالی من ھذا الباب ھو العقوق لا العقیقۃ‘‘ انتھی۔
چہارم آنکہ چون سائل از عقیقہ سوال کرد در جواب آن فرمود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ دوست نمی دارم عقو ق را، بعد آن فرمود ہر کرا فرزند زاید ، و دوست دارد کہ ذبح کند برای او پس او را لایق است کہ کند این فعل را، پس ازین حدیث صاف ظاہر شد کہ منع از عقیقہ نفرمود، بلکہ برائی آن حکم فرمودہ ۔ و آنچہ مکروہ دانست آن لفظ عقوق است۔
و ا یں ا قوی و ارجح است از معانیہای مذکورہ ،چہ اگر مقصود امتناع عقیقہ بود ہر گز اجازت برایٔ آن فعل نداد۔
چنانکہ امام الائمہ مالک در موطا خود فرمودہ :
|