Maktaba Wahhabi

598 - 702
اس کے بعد ذہبی اس کی تین احادیث ذکر کرتے ہیں ، جن میں یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی شامل ہے، پھر لکھتے ہیں : یہ سب باطل ہیں ۔ شیخ ابن الجوزی ’’العلل المتناہیۃ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’ھذا لا یصح، جعفر بن نصر حدث عن الثقات بالبواطیل‘‘[1] انتھی [یہ صحیح نہیں ، جعفر بن نصر ثقات سے باطل حدیثیں روایت کرتا ہے۔ختم شد] ’’ کشف الأحوال في نقد الرجال‘‘ میں ہے: ’’جعفر بن نصر أبو میمون العنبري الکوفي حدث عن الثقات بالبواطیل، سمع حفص بن غیاث وحماد بن زید، روی عنہ جعفر بن سھل‘‘ انتھی ’’ابومیمون جعفر بن نصر عنبری کوفی ثقات سے باطل حدیثیں روایت کرتا ہے، حفص بن غیاث اور حماد بن زید سے سنا ہے، جبکہ جعفر بن سہل اس سے روایت کرتے ہیں ۔ ختم شد] پس مانعین کی جتنی روایات مذکور ہیں ، ساری کی ساری ضعیف ہیں ۔ ان میں سے کوئی ایک بھی قابل تمسک و حجت نہیں ہے۔ واﷲ أعلم جواز کے قائلین کا استدلال شفا بنت عبداللہ کی حدیث سے ہے، جسے ابو داود و احمد بن حنبل و نسائی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ سنن ابو داود میں ہے: ’’حدثنا إبراھیم بن مھدي المصیصي نا علي بن مسھر عن عبد العزیز بن عمر بن عبد العزیز عن صالح بن کیسان عن أبي بکر بن سلیمان بن أبي حثمۃ عن الشفاء بنت عبد اللّٰه قالت: دخل علي النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم ، وأنا عند حفصۃ، فقال لي: ألا تعلمین ھذہ رقیۃ النملۃ کما علمتیہا الکتابۃ؟‘‘[2] انتھی الشفاء بنت عبداللہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور میں حفصہ کے پاس تھی، پس مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تم اسے مرض نملہ کے جھاڑ پھونک کی تعلیم کیوں نہیں دیتی، جس طرح تم نے انھیں لکھنے کی تعلیم دی ہے؟
Flag Counter