فسماني رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم عبد الرحمن، و إنما کنیت بأبي ھریرۃ لأني وجدت ھرۃ فحملتھا في کمي، فقیل لي: أنت أبو ھریرۃ‘‘[1] انتھی ملخصا
[ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے نام میں بہت سا اختلاف کیا گیا ہے، کہا گیا ہے: عبداﷲ بن عبد شمس اور یہ بھی کہا گیا ہے: عبد غنم۔ قصہ کوتاہ ان تمام ناموں میں غیر اﷲ کی طرف جو عبد کی نسبت و اضافت ہے، یقینا ان کے اسلام لانے کے بعد اسے بدل دیا گیا، کیونکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا نام عبد شمس یا عبد غنم یا عبد العزیٰ یا اس قسم کا کوئی اور نام رہنے دیں ۔ پس یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام میں ان کا نام عبداﷲ تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبدالرحمن تھا۔ ہیثم بن عدی نے کہا: زمانہ جاہلیت میں ان کا نام عبد شمس اور اسلام لانے کے بعد ان کا نام عبداﷲ تھا۔ ابن اسحاق کا کہنا ہے: میرے ساتھیوں نے مجھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت سنائی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں میرا نام عبد شمس تھا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام عبدالرحمن رکھا اور میری کنیت ابوہریرہ کا سبب یہ بنا کہ مجھے ایک بلی ملی تو میں نے اسے اپنی آستین میں اٹھا لیا تو مجھے کہا گیا: تو ابوہریرہ ہے]
علماے محققین نے عبد النبی اور عبدالرسول نام رکھنے کی سخت ممانعت فرمائی ہے۔ چنانچہ شیخ ولی اللہ الدہلوی ’’حجتہ اللّٰه البالغہ‘‘ کے باب اقسامِ شرک میں فرماتے ہیں :
’’منھا أنھم کانوا یسمون أبناء ھم عبد العزی و عبد شمس و نحو ذلک، فقال اللّٰه : } ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا فَلَمَّا تَغَشّٰھَا} الآیۃ، وجآء في الحدیث أن حواء سمت ولدھا عبدالحارث، وکان ذلک من وحي الشیطان، و قد ثبت في أحادیث لا تحصی أن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم غیر أسماء أصحابہ عبد العزی و عبد شمس و نحوھما إلی عبد اللّٰه و عبد الرحمن و ما أشبھھما، فھذہ أشباح و قوالب للشرک، نھیٰ الشارع منھا لکونھا قوالب لہ ‘‘[2] انتھی
[ان میں سے ایک شرک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کے نام عبدالعزیٰ، عبد شمس اور اس
|