روایت نقل کی ہے، اس میں ہے کہ انھوں نے کہا: دو دو مینڈھے ذبح کیے۔ علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کا عقیقہ کیا اور فرمایا: اے فاطمہ! اس کا سر مونڈو اور اس کے بالوں کے وزن کے برابر صدقہ کرو۔ چنانچہ ان کے بالوں کا وزن ایک درہم یا درہم کا کچھ حصہ بنا تھا۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے]
ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیقہ ۹ ہجری کو ہوا۔ چنانچہ ابن اثیر ’’اسد الغابہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’إبراھیم ابن رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم ، وأمہ ماریۃ القبطیۃ۔۔۔ إلی أن قال: وکان مولدہ في ذي الحجۃ سنۃ ثمان من الھجرۃ، وسر النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم بولادتہ کثیرا، و ولد بالعالیۃ، وکانت قابلتہ سلمیٰ مولاۃ النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم امرأۃ أبي رافع، فبشر أبو رافع النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم فوھب لہ عبداً، وحلق شعر إبراھیم یوم سابعہ، وسماہ، وتصدق بزنتہ ورقا، وأخذوا شعرہ فدفنوہ، کذا قال الزبیر‘‘[1]
[ابراہیم بن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی والدہ ماریہ قبطیہ ہیں ۔۔۔ حتی کہ انھوں نے فرمایا: اس کی پیدایش ہجرت کے آٹھویں سال ذوالحجہ کے مہینے میں ہوئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ولادت پر بہت زیادہ خوش ہوئے۔ وہ مدینے کے عالیہ میں پیدا ہوئے اور دایہ کے فرائض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی اور ابو رافع کی بیوی سلمیٰ نے سر انجام دیے۔ جب ابو رافع نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابراہیم کی پیدایش کی خوشخبری دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک غلام عطا کیا۔ ابراہیم کی پیدایش کے ساتویں دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حلق کروایا اور ان کا نام رکھا اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے بال پکڑے اور دفن کر دیے۔ زبیر کا یہی بیان ہے]
ام کرز کی عقیقے کی حدیث غزوہ حدیبیہ کی ہے، جیسا کہ نسائی میں ہے[2] اور یہ معلوم ہے کہ غزوہ حدیبیہ ۶ ھ میں ہوا۔ چنانچہ تاریخ خمیس میں فرماتے ہیں :
’’الموطن السادس فیما وقع في السنۃ السادسۃ من الھجرۃ، وفي ھلال
|