Maktaba Wahhabi

530 - 702
یہاں صورت حال اس کے برعکس ہے، کیونکہ قربانی۲ھ میں شروع ہوئی اور عقیقے پر عمل ۳، ۴، ۶، ۸ یا ۹ھ میں قربانی کی مشروعیت کے بعد بھی ہوتا رہا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ۳ھ اور ۴ھ میں ، اپنے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کا عقیقہ ۸ھ یا ۹ ھ میں کیا ۔ ام کرز غزوہ حدیبیہ کے سال یعنی ۶ھ میں عقیقے کی حدیث روایت کرتی ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی سے عقیقے کے منسوخ ہونے کی کوئی حقیقت نہیں ۔ قربانی کا حکم ۲ ھ میں آیا۔ چنانچہ علامہ شیخ عز الدین جزری الشہیر بابن الاثیر نے کتاب ’’أسد الغابۃ في معرفۃ الصحابۃ‘‘ میں کہا ہے: ’’و في السنۃ الثانیۃ من الھجرۃ کانت غزوۃ بدر العظمی في شہر رمضان، وفیھا ضحی رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم بالمدینۃ، وخرج بالناس، وذبح بیدہ شاتین، وقیل: شاۃ ‘‘[1] انتھی [ہجرت کے دوسرے سال ماہِ رمضان میں غزوۂ بدر کبریٰ پیش آیا اور اسی سال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں قربانی کی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو لے کر (عید گاہ کی طرف) نکلے اور اپنے ہاتھ مبارک سے دو بکریاں ذبح کیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک بکری ذبح کی] اور علامہ زرقانی ’’مواہب لدنیہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’فصل۔ ذکر بعض وقائع ثانیۃ الھجرۃ، وفي ذي الحجۃ صلی رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم العید بالمصلی، وضحی بکبشین، وأمر الناس بالأضحیۃ، وھو أول عید الأضحی رآہ المسلمون‘‘ انتھی [دو ہجری ذوالحج کے مہینے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلی (عید گاہ) میں نماز پڑھائی اور دو مینڈھے ذبح کیے اور لوگوں کو بھی قربانی کرنے کا حکم دیا۔ یہ پہلی عیدالاضحی تھی جو مسلمانوں نے دیکھی] علامہ شیخ حسین بن دیار بکری، تاریخ خمیس میں فرماتے ہیں : ’’الموطن الثاني في حوادث السنۃ الثانیۃ من الھجرۃ من صوم عاشوراء،
Flag Counter