فخدیہ أو ساقیہ، فاستأذن أبو بکر فأذن لہ، و ھو علی تلک الحال، فتحدث، ثم استأذن عمر فأذن لہ، و ھو کذلک، فتحدث، ثم استأذن عثمان، فجلس رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم وسوّی ثیابہ، فدخل فتحدث، فلما خرج، قالت عائشۃ: دخل أبو بکر فلم تھتش لہ ولم تبالہ، ثم دخل عمر فلم تھتش لہ ولم تبالہ، ثم دخل عثمان فجلست و سویت ثیابک؟ فقال: ألا أستحي من رجل تستحي منہ الملائکۃ‘‘[1] رواہ مسلم
[حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دونوں رانوں یا پنڈلیوں کو کھولے ہوئے اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی، تو آپ نے انھیں اسی حالت میں اجازت دے دی، پھر انہوں نے آپ سے بات چیت کی، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی، آپ نے انھیں بھی اجازت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ویسے ہی رہے، پھر انھوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کی، پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے کو درست فرما لیا۔ پھر وہ اندر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بات چیت کی۔ پھر جب وہ باہر نکل گئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ابو بکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اتنی فکر نہ کی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بھی اتنی فکر نہ کی، پھر عثمان رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے درست فرما لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں ، جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں ؟ اس کی روایت مسلم نے کی ہے]
نیز فرمایا:
’’قال رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم : إن عثمان رجل حیي، و إني خشیت إن أذنت لہ علی تلک الحال أن لا یبلغ إليّ حاجتہ‘‘[2] رواہ مسلم۔
[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک عثمان رضی اللہ عنہ ایک شرمیلا شخص ہے اور مجھے خدشہ ہوا کہ
|