کرتے ہیں کہ امام آمین نہ کہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے صرف { وَلَا الضَّآلِیْنَ} کہنے کو ارشاد فرمایا اور یہ نہیں فرمایا کہ جب امام { وَلَا الضَّآلِیْنَ} کہہ کر آمین کہے تب تم لوگ آمین کہو۔ معترض ایسا بے استعداد و بے لیاقت و قاصر النظر ہے کہ اس مغز سخن کو نہ پہنچا اور اس پر یہ بات آشکارا نہ ہوئی۔ خیر! فلیبک علی نفسہ!!
لیکن امر محقق و صحیح یہ ہے کہ امام بھی آمین کہے اور ماموم بھی، کیونکہ خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: ’’إذا أمن الإمام فأمنوا‘‘[1] [جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو]
اور ایک روایت میں یوں ہے:
’’إذا أمن القاریٔ فأمنوا‘‘[2] [جب قاری (امام) آمین کہے تو تم بھی آمین کہو]
بلکہ تیسری حدیث بروایت نسائی جس میں ’’إذا قال الإمام {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ} فقولوا آمین‘‘ [اور اگر امام {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ} کہے تو تم سب آمین کہا کرو] ہے، اس میں یہ جملہ بھی موجود ہے، یعنی: ’’وإن الإمام یقول آمین‘‘[3]
پس یہ سب پر حمل کی جاوے گی، تاکہ مطابقت درمیان سب روایتوں کے ہوجاوے اور بیان اس امر کا کہ ان احادیث سے جہر ثابت ہوتا ہے یا اسرار قریب آتا ہے۔ فانتظر!
قولہ: حدیث نمبر (۹) اور نمبر (۱۰) بھی بالکل مفید مدعا نہیں ۔ کس لیے کہ نمبر (۹) میں یہ ہے کہ جب قاری آمین کہے تم بھی کہو، اور نمبر (۱۰) میں یہ ہے کہ جب امام آمین کہے تب تم بھی کہو، نہ یہاں سے پکار کر کہنا ثابت ہوتاہے نہ آہستہ۔
أقول: وہ دو حدیث یہ ہیں :
حدیث اول: ’’عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم قال: إذا أمن القاریٔ فأمنوا فإن الملائکۃ تؤمن، فمن وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ‘‘[4] (رواہ النسائي)
[ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قاری آمین کہے تو تم سب بھی
|