أقول: اے وکیل صاحب! یہ اسی فیصلہ مذکورۃ الصدر کی اجرائے ڈگری ہورہی ہے، کوئی نیا مقدمہ نہیں ہے۔ آپ کیوں گھبرایئے؟ ابھی تو اطلاع نامہ جاری ہوا ہے، قرقی اور وارنٹ کی نوبت نہیں آئی۔ موکلوں کو فہمائش کیجیے کہ ڈگری تسلیم کرلیں ، جھگڑا چکے، لیکن آپ وکیل ہیں ، کب چوکتے ہیں ؟ اجرائے ڈگری کے وقت بھی ایک عذر داری کرا ہی دیا۔ مردہ دوزخ میں جائے یا بہشت میں ، اپنے حلوے مانڈے سے غرض ہے۔
قولہ: بیچارے سیدھے سادھے مسلمانوں کو عمل بالحدیث کا دھوکا دے کر حیران بنا رکھا ہے۔
أقول: اجی دھوکا کیسا؟ بلکہ اصل باضابطہ موجود ہے، مگر آپ تو شان وکالت سے دھوکا ہی کہیے گا۔ لیکن جناب خوب غور فرمایئے کہ مقابل قانون کے نظائر اور رسم و رواج کا اعتبار نہیں ہوتا ہے۔
باگل سرخ کہ اصلش عرق روئے نبی ست
رتبۂ لالہ نعماں نہ برابر گیرند[1]
قولہ: من جملہ اور باتوں کے ایک مسئلہ جہر آمین ہے، اس پر بھی اس فریق کو بڑا یقین ہے۔
أقول: اجی جناب! غور فرمایئے یہ اسی فیصلہ کی ایک شاخ ہے اور نیز اس مقدمہ میں بڑے بڑے علماء حنفیہ نے تسلیم کیا ہے کہ جہر آمین سے چارہ نہیں اور اپنے شا ہد مدعا کو قابل استشہاد نہیں تصور کیا ہے، پس آپ کے خصم نے خاص اس مقدمہ میں ڈگری مسلمہ فریق ثانی حاصل کی ہے، اس میں اب کیا کلام ہے؟ اگر یہ فیصلہ قابل یقین نہ ہوگا تو اور کون ؟ آپ ہی فرمائیے۔
قولہ: یہاں تک کہ جو پکار کر آمین نماز میں نہیں کرتا، اس کو تارک سنت، بلکہ بدعتی اور مشرک اور جانے کیا کیا؟
أقول: اے حضرت! ایسا ہو سکتا ہے کہ جو فریق مقدمہ نہ ہو، اس پر ڈگری جاری کرائی جائے؟ کوئی عاقل اس بات کو آپ کی تسلیم کرے گا؟ ہر گز نہیں ۔ ان بیچاروں سے کیا سروکار؟ ان کو ایسے کلمات کیوں کہے جائیں گے؟ البتہ ایسے لوگوں کو جو فریق مقدمہ ہیں اور ڈگری کو تسلیم کر کے حیلہ حوالہ کرتے ہیں اور تعمیل نہیں کرتے، تارک سنت کہا جاتا ہوگا۔
اور جو لوگ اب تک باوجود فیصلہ ہو جانے کے سرکشی اور عناد کرتے ہیں اور حکم عدالت کی تعمیل
|