في روایۃ عبد اللّٰه بن علي بن یزید من أن المطلق إنما ھو رکانۃ، و نحن نظن أن أبا داود لأجل ھذا قال: وھذا أصح من حدیث ابن جریج أن رکانۃ طلق امرأتہ، فقال: إن رکانۃ طلق، ولم یقل: إن أبا رکانۃ طلق، مع أن الحدیث الذي رواہ أبو داود من طریق ابن جریج و قع فیہ لفظ ’’أبي رکانۃ‘‘ وقد أخرج الإمام أحمد ھذا الحدیث في مسندہ، و لیس فیہ ذکر أبي رکانۃ، بل فیہ ذکر رکانۃ، و إلیہ نسب التطلیق، فحدیث أحمد ھذا یدل دلالۃ واضحۃ علی أنہ قد وقع الوھم في حدیث أبي داود من بعض الرواۃ‘‘ واللّٰه أعلم
[ پھر یہ با ت جان لینا چاہیے کہ ابن جریج کی حدیث میں ابورکانہ کی طلاق کا ذکر ہے، نہ کے رکانہ کے طلاق دینے کا۔ لیکن میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اس سلسلے میں بعض راویوں کو وہم واقع ہوا ہے۔ صحیح روایت وہ ہے جو عبداللہ بن علی بن یزید کی روایت میں ہے کہ طلاق دینے والے رکانہ ہی تھے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ابو داود نے اس بنا پر کہا ہے کہ ابن جریج کی حدیث کے مقابلے میں یہ حدیث زیادہ درست ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق دی۔ پس انہوں نے کہا کہ رکانہ نے طلاق دی تھی اور یہ نہیں کہا کہ ابو رکانہ نے طلاق دی تھی ، باوجود اس کے کہ وہ حدیث جس کی روایت ابو داود نے کی ہے، ابن جریج کے طریق سے اس میں لفظ ’’ابو رکانہ‘‘ آیا ہے۔ اس حدیث کی تخریج امام احمد نے اپنی مسند میں کی ہے اور اس میں ابو رکانہ کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس میں رکانہ کا ذکر ہے اور انھی کی جانب طلاق دینے کی نسبت ہے، احمد کی یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ ابو داود کی حدیث میں بعض راویوں کو وہم ہوا ہے]
جواب سوال دوم یہ ہے کہ ابو رکانہ چونکہ وہم راوی ہے، اس لیے اس کا وجود نہیں ہے اور کتاب ’’الاستیعاب‘‘ للحافظ ابن عبد البر، و ’’أسد الغابۃ‘‘ للحافظ ابن الأثیر، و’’تجرید أسماء الصحابۃ‘‘ للحافظ الذھبي و ’’الإصابۃ‘‘ للحافظ ابن حجر رحمہ اللّٰه
|