حالت پر محمول ہوگا اور حدیث نہی علی حالہ باقی رہے گی۔ کما ذکرہ الإمام الحافظ ابن حجر في فتح الباري وتبعہ العلامۃ الشوکاني في النیل۔[1] [جیسا کہ امام حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا ہے اور علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں ان کی اتباع کی ہے]
لیکن یہ احتمال مخدوش ہے اور حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے خلاف واقعہ نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عدم صحت نکاح نابالغہ پر استدلال لانا صحیح نہیں ہے۔ بدو وجہ:
اول: یہ کہ اگرچہ نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ معظمہ میں ہوا ہے، لیکن مسئلہ مبحوث عنہا یعنی صحت نکاح نابالغہ کی تائید سورۃالنساء کی آیت : {وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا} [النساء: ۳] اور سورۃ الطلاق کی آیت {وَّالِّٰیئْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ} [الطلاق: ۴] سے ہوتی ہے اور وہ دونوں سورہ مدنیہ ہیں ۔
دوم: یہ کہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں اگر ’’لا یُُنکح‘‘ کا مفہوم عدم صحت نکاح لیا جائے تو کل نکاح بصورت عدم استئماراور عدم استئذان کے فاسد و باطل ٹھہرے گا۔ حالانکہ احادیث صحیحہ سے چند واقعات ایسے ثابت ہیں کہ عورتوں کا نکاح ان کے اولیاء نے بغیر اذن بلکہ خلاف مرضی ان کے کردیا تھا، اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاسد وباطل نہیں کیا، بلکہ عور ت کو اختیار دیا کہ نکاح باقی رکھے یا فسخ کردے۔
کما روی أحمد و أبو داود و ابن ماجہ و الدارقطني عن ابن عباس أن جاریۃ بکرا أتت النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم فذکرت أن أباھا زوجھا، وھي کارھۃ، فخیرھا النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم ، وھذا الحدیث قوي الإسناد، لیس فیہ علۃ قادحۃ،کما حققتہ في عون المعبود شرح سنن أبي داود۔[2]
وأخرج ابن ماجہ والنسائي وأحمد عن عبد اللّٰه بن بریدۃ عن أبیہ قال: جاء ت فتاۃ إلی رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم فقالت: إن أبي زوجني ابن أخیہ لیرفع بي خسیسہ، قال: فجعل الأمر إلیھا، فقالت: قد أجزت ما صنع أبي، ولکن أردت أن أعلم النساء أن لیس إلی الآباء من الأمر شيء، انتھی۔ وإسناد حدیث ابن ماجہ صحیح، وإسناد النسائي حسن، وقال الشوکاني في النیل: أخرجہ ابن ماجہ بإسناد رجالہ رجال الصحیح، وقال العلامۃ
|