Maktaba Wahhabi

200 - 702
ثانیاً: عام عورتوں سے نکاح کر نے میں عدل نہ ہونے کا خوف ہو تو اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے علیحدہ کر کے اسی کے بعد بیان فر ما یا ہے بقولہ: { فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ} [النساء: ۳] [ لیکن اگر تمھیں انصاف نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمھاری ملکیت کی لونڈی] اس سے معلوم ہوا کہ سابق الذکر حکم صرف ان نابالغہ لڑکیوں کا ہے جن پر شرعاً یتیم کا اطلاق صحیح ہے۔ تیسری دلیل صحت نکاحِ نابالغہ کی یہ ہے، جو صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ’’إن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم تزوجھا وھي بنت ست سنین، وأدخلت علیہ، وھي بنت تسع سنین، ومکثت عندھا تسعا‘‘، و في روایۃ البخاري: ’’أن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم خطب عائشۃ إلی أبي بکر فقال لہ أبو بکر: إنما أنا أخوک، فقال: أنت أخي في دین اللّٰه وکتابہ، وھي لي حلال‘‘[1] انتھی [نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی، جبکہ ان کی عمر صرف چھے سال کی تھی اور رخصتی اس وقت ہوئی تھی، جبکہ ان کی عمر نو سال کی تھی اور وہ آپ کے پاس نو سا ل رہیں ۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے پیغام نکاح بھیجا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں تو آپ کا بھائی ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیاکہ تم میرے دینی بھائی ہو اور یہ میرے لیے حلال ہے۔ ختم شد] اس روایت سے معلوم ہوا کہ نابالغہ لڑکی کا نکاح اگرباپ کردے تو صحیح ہے۔ اس واقعہ پریہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکہ معظمہ کا ہے اور صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’أن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم قال: لا تنکح الأیم حتی تستأمر، ولا تنکح البکر حتی تستأذن‘‘[2] انتھی [نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَیم کا نکاح اس کے حکم کے بغیر نہیں کیا جائے گا اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بعد ہی کیا جائے گا] اوریہ حدیث مدنی ہے، پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاواقعہ اجازت لینے کا حکم آنے سے پہلے کی
Flag Counter