نے ابو نجیح کے واسطے سے، انھوں نے مجاہد کے واسطے سے اور انھوں نے ابن عباس کے واسطے سے کہ انھوں نے فرمایا کہ اپنے مال کی زکوٰۃ میں سے آزاد کرو۔ ابو معاویہ کی عبدہ بن سلیمان نے متابعت کی ہے، یحییٰ بن معین کی فوائد میں ہمیں اس کی روایت بیان کی گئی ہے ابو بکر بن علی المروزی کی روایت عبدہ کے واسطے سے، ان کی اعمش کے واسطے سے اور ان کی ابن ابو الاشرس کے واسطے سے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں : وہ اپنی زکات نکالتے تھے، پھر کہتے: اس میں سے میرے لیے حج کا سامان سفر تیار کرو۔ میمون نے کہا: میں نے ابوعبد اللہ سے کہا کہ کوئی شخص اپنے مال کی زکات سے غلام خریدتا ہے، پھر اس کو آزاد کردیتا ہے اور اس کو محاذ جنگ پر روانہ کر دیتا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں درست ہے۔ ابن عباس ایسا ہی کہا کرتے تھے اور اس کے علاوہ میں کوئی چیز نہیں جانتا جو اس کے مخالف ہو۔ خلال نے کہا: ہمیں خبر دی ہے احمد بن ہاشم نے کہ امام احمد نے کہا کہ میں سمجھتا تھا: زکات سے آزاد کیا جائے، لیکن پھر میں اس سے باز آگیا، کیونکہ میں اسے صحیح نہیں سمجھتا۔ حرب نے کہا: پھر ان کے سامنے حدیث ابن عباس کو بطورِ دلیل ذکر کیا گیا تو انھوں نے کہا: وہ مضطرب ہے۔ حدیث میں اضطراب کی بات اعمش پر اس کی سند میں اختلاف کی بنا پر ہے، جیسا کہ ہم نے دیکھا اور اسی لیے بخاری نے اسے بالجزم بیان نہیں کیا ہے۔
’’اللہ تعالیٰ کے قول {وفی الرقاب} کی تفسیر کے سلسلے میں سلف کے مابین اختلاف رہا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس سے مراد غلام خرید کر اس کو آزاد کرنا ہے۔ یہ روایت ابن قاسم کی ہے مالک کے واسطے سے۔ ابو عبید، ابو ثور، اور اسحاق نے اسی کو اختیار کیا ہے اور اسی کی جانب بخاری اور ابن المنذر مائل ہوئے ہیں ۔ ابو عبید نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں جو اقوال ہیں ، ان میں ابن عباس کا قول سب سے اعلیٰ ہے اور اس لیے کہ اتباعِ سنت اور تفسیر کے علم میں بھی وہ سب سے افضل ہیں ۔ ابن وہب نے روایت کی ہے مالک سے کہ یہ مکاتب کے بارے میں ہے اور یہی قول شافعی، لیث، کوفیوں اور اکثراہل علم کا ہے اور اسی کو طبرانی نے ترجیح دیا ہے۔ اس میں ایک تیسرا قول ہے کہ غلام آزاد کرانے کے سلسلے میں دو حصے کیے جائیں گے۔ ایک نصف ہر اس مکاتب کے لیے
|