’’قال عمرو: سمعت جابر بن عبد اللّٰه ، قال أتی رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم عبد اللّٰه ابن أُبَي بعد ما أدخل حجرتہ، فأمر بہ فأخرج، فوضعہ علی رکبتیہ وتفث فیہ من ریقہ، وألبسہ قمیصہ‘‘ رواہ البخاري۔[1]
[ عمرو نے کہا: میں نے جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہما سے سنا، فرماتے تھے: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عبداﷲ بن اُبی کے پاس اس وقت تشریف لائے جب اس کی لاش قبر میں رکھ دی گئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکالنے کا حکم دیا، سو اسے نکالا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھا اور اس پر اپنا تھوک ڈالا اور اسے اپنی قمیص پہنائی۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے]
’’عن أم عطیۃ قالت: توفیت إحدی بنات النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم فأتانا النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم فقال: اغسلنھا بالسدر وترا ثلاثا أو خمسا أو أکثر من ذلک إن رأیتن ذلک بماء وسدر واجعلن في الآخرۃ کافورا أو شیئا من کافور، فإذا فرغتن فآذنتي فلما فرغنا آذناہ، فألقی إلینا حقوہ، فضفرنا شعرھا ثلاثۃ قرون وألقیناھا خلفھا‘‘ رواہ البخاري[2]
[ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی کا انتقال ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اسے بیری (ڈال کر پانی) سے طاق مرتبہ غسل دو۔ تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ یا اگر ضرورت محسوس کرو تو اس سے زیادہ مرتبہ پانی اور بیری کے ساتھ اور آخر میں کافور یا تھوڑا سا کافور شامل کر دو۔ جب تم غسل دے چکو تو مجھے اطلاع کر دینا۔ جب ہم اس کے غسل سے فارغ ہوچکے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینکا (تاکہ ہم اس کے ساتھ کفن دیں ) ہم نے ان کے بالوں کی تین چوٹیاں بنا کر ان کی پیٹھ کے پیچھے ڈال دیں ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے]
البتہ کفن مسنون سے ایک ٹکڑا بھی زیادہ کرنا خلاف سنت ہے۔ اس لیے تو علماء نے میت کے لیے عما مہ کو مکروہ کہا ہے کہ یہ سنت سے ثابت نہیں ہے ۔بخاری عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں :
’’عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا أن رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم کفن في ثلاثۃ أثواب بیض لیس فیھا قمیص ولا عمامۃ ‘‘ رواہ البخاري۔[3]
|