Maktaba Wahhabi

145 - 702
[بعض حاشیہ نگاروں نے فوائد شرجی سے نقل کیا ہے کہ میت کی پیشانی پر بغیر روشنائی کے انگشتِ شہادت کے ساتھ ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ لکھا جائے اور سینے پر ’’لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ لکھا جائے۔ یہ عمل میت کو غسل دینے کے بعد اور کفن پہنانے سے پہلے کیا جائے] اور مولانا محمد اسحق کی ’’مائۃ مسائل‘‘ میں مذکور ہے: ’’اور کتاب درہم الکیس فارسی میں لکھا ہے: بغیر روشنائی کے صرف انگلی سے لکھا جائے۔ اسی طرح مفتاح الجنان اور کفایہ شعبی میں بھی ہے۔ پس ان روایات سے ثابت ہوا کہ میت کی پیشانی پر بغیر سیاہی یا سیاہی کے ذریعے بسم اللہ لکھنا اور سینہ و کفن پر بھی لکھنا جائز ہے اور میت کی نجات کا سبب ہے۔‘‘ میں بفضل اللہ العلام کہتا ہوں : ادلہ اربعہ میں سے کوئی دلیل بھی مذکور ہ کتابوں میں نقل نہیں کی گئی، اس کی بنا صرف قیاس فاسد پر ہے یا پھر خواب پر۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دعائیں اور اذکار اور ان کو ادا کرنے کا طریقہ توقیفی ہے۔ لہٰذا شارع سے ثابت شدہ صورت کے علاوہ کسی طرح ان کو ادا کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ اسی طرح اس پر اجر کا حکم اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوتا ہے۔ کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ اس کا فیصلہ کرے ۔ شیخ جلال الدین سیوطی اپنے فتوے میں کہتے ہیں : ’’الأذکار توقیفیۃ، وترتب الأجر علیہا ومقدارہ توقیفي، فمن أتی بذکر أو دعاء لم یرد فلیس لأحد أن یحکم علیہ بشيء من الأجر بمقدار معین، لأن ذلک مرجعہ إلی النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم وحدہ‘‘ انتھی [اذکار توقیفی ہیں اور ان کے پڑھنے سے اجر و ثواب ملتا ہے اور ثواب کتنا ملتا ہے، اس کی مقدار بھی توقیفی امر ہے، لہٰذا جس شخص نے غیر ثابت شدہ ذکر کیا یا دعا کی تو کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس پر کسی قسم کے معین مقدار میں اجر و ثواب کے ملنے کا فیصلہ صادر فرمائے، کیونکہ اس پر اجر کا حکم صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوتا ہے] اور ’’رد المحتار‘‘ میں فرمایا:
Flag Counter