واضح ہو کر پہلی روایت کو یعنی سعد قرظ کی روایت کو علامہ علا والدین نے جو ہر النقی میں سنن کبریٰ سے نقل کیا ہے، لیکن آپ نے اس کی پوری سند نقل نہیں کی، اس لیے معلوم نہیں کہ بقیہ نے اپنے شیخ سے بصیغہ عن روایت کی ہے یا بلفظ تحدیث، اگر بلفظ تحدیث روایت کی ہے تو اس تقدیر پر یہ روایت اکیلی ہی بعض آئمہ حدیث کے نزدیک مقبول وقابلِ احتجاج ہے۔ اس واسطے کہ ان بعض آئمہ حدیث نے اس بات کی صراحت کر دی ہے کہ اگر بقیہ ثقات سے بلفظ حدثنا یا اخبرنا روایت کریں تو ثقہ ہیں اور ان کی روایت مقبول ۔ خلاصہ میں ہے۔ قال النسائی اذا قال حدیثنا واخبرنا فھو ثقۃ قال ابن عدی اذا حدیث عن اھل الشام فھو اثبت قال الجوز جانی اذا حدث عن الثقات فلا باس بہ۔ یعنی امام نسائی فرماتے ہیں کہ بقیہ جب اور ثنا رحمۃ اللہ علیہ اور ’’اخبرنا‘‘ کے لفظ سیروایت کریں تو وہ ثقہ ہیں امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ بقیہ جب شامیوں سے روایت کریں تو ان کی روایت قابلِ قبول ہو گی اور جو زجانی کہتے ہیں کہ جب وہ ثقہ راویوں سے روایت کریں تو اس وقت ان کی روایت لے لی جائے گی۔ اور میزان الاعتدال میں ہے۔ قال غیر واحد من الائمۃ بقیۃ ثقۃ اذا روی عن الثقات بقیہ جب ثقہ راویوں سے روایت کردیں تو اس وقت وہ ثقہ شمار ہو نگے۔ پس اس لحاظ سے جب ان کی روایت بالقراد ہا بعض محدثین کے نزدیک مقبول وقابلِ احتجاج ہے تو استثہاد کے لیے تو بد رجہ اولیٰ لائقِ احتجاج ہو گی۔ الحاصل ہر لحاظ سے بقیہ کی روایت شواہد میں پیش کی جاسکتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم سوال نمبر 6: دوسری روایت جو جامع ترمذی سے نقل کی گئی ہے۔ اس کی سند میں کثیر بن عبد اللہ واقع ہیں جو ضعیف ہیں۔ پس ان کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہوئی، پھر ترمذی کا اس روایت کو حسن کہنا کیونکر صحیح ہو گا اور بعض اہلِ علم نے جو ترمذی کی تحسین پر انکار کیا ہے اس |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |