قال: جس مقام کی یہ حالت ہو وہ شہرکیوں کر نہ ہو گا۔ اقول: مدینہ کی جو حالت آپ نے کتب سیر دیکھ کر لکھی تھی اس کی قلعی کھول دی گئی اوپر کا بیان ملاحظہ فرما کر آپ ہی فرمائیے کہ مدینہ قبلِ ہجرت مصر کیوں کر ہو سکتا ہے؟ قال: ثانیا وہ مقام جہاں امام یا اس کا نائب رہتا ہو وہ حنفیہ کے نزدیک حکم مصر میں ہے۔ مدینہ میں اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ امیر موجود تھے۔ اقول : محض غلط کسی روایت سے اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ کا امیر مدینہ ہونا ثابت نہیں اگر آپ سچے ہیں تو اس کو کسی روایت سے ثابت کر دکھائیں۔ قال: بلکہ خود مصعببن عمیر تعلیم احکام کے لیے مکہ سے بھیجے گئے تھے۔وہ خود نائب امام تھے۔ اقول: کیا خوب حضرت مصعب رضی اللہ عنہ جو تعلیم کے واسطے بھیجے گئے تو وہ نائب امام ہو گئے۔ ابھی تک آپ کی نائب امام کی تعریف نہیں معلوم ہے۔ جب آپ کی یہی حالت ہے تو جس قریہ کو آپ چاہیں گے کس معلم یا کسی اور کو نائب امام قرار دے کر مصر بنا لیں گے۔ قال:(۶)صحیح بخاری میں ہے۔ عن ابن عباس انہ قال اول جمعۃ جمعت بعد جمعۃ فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی مسجد عبد القیس بحواثی من البحرین۔اور ابو داود میں ہے۔قریۃ من قری البحرین۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح قرآنِ پاک میں مکہ وطائف پر قریتین کا اطلاق آیا ہے اسی طرح باعتبار معنی لغوی حدیث میں جواثاپر بھی قریہ کا اطلار آیا ہے۔ ورنہ حقیقت میں جواثا شہر تھا۔ جوہری نے صحاح میں اور ز مخشری رحمۃ اللہ علیہ نے بلد ان میں لکھا ہے۔ اسم حصن بالبحرین اور ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے نہایہ میں لکھا ہے۔ وفیہ اول جمعۃ جمعت بعد المدیۃ بجواثا ھوا سم حصن بالبحرین ظاہر ہے کہ قلعہ شہر میں ہوتا ہے نہ گاؤں میں اور ابو عبید بکری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے معجم میں لکھا ہے۔ ھی مدینۃ بالجررین لعبد القیس اور ابن التین رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ ابو الحسن لخمی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے۔ انھا مدینۃ پس اس |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |