(۸/۳۳۸) اور ’’تاریخ الاسلام‘‘ للذہبی (۱۸/۳۴۴) میں ۲۷۵ھ کی وفیات کے ضمن میں مذکور ہے۔
4. اسی طرح ’’باب تخلیل الأصابع‘‘ میں حدیث نمبر ۴۴۶ کے بعد ہے: ’’قال أبو الحسن بن سلمۃ ثنا خلاد بن یحیی الحلواني‘‘ مولانا مرحوم نے فرمایا ہے: ہمیں اس کا ترجمہ نہیں ملا۔[1] حالانکہ یہاں صحیح ’’خازم بن یحیی‘‘ ہے اور ’’خلاد‘‘ خازم سے محرف ہے، بعض نسخوں میں اس کی تصحیح موجود ہے۔
5. ابن ماجہ ’’باب النھي عن استقبال القبلۃ بالغائط والبول‘‘ میں حدیث نمبر ۳۲۰ کے بعد ہے: ’’قال أبو الحسن بن سلمۃ وحدثناہ أبو سعد عمیر بن مرداس الدونقي‘‘ مولانا جانباز صاحب نے اس پر رقم نمبر ۳۴۴ دیا ہے، گویا یہ سنن کی روایت ہے۔ اکثر نسخوں میں بھی یوں ہی اسے ابن ماجہ کی روایت شمار کیا گیا ہے، بلکہ مولانا مرحوم نے فرمایا ہے: ’’أبو سعد عمیر بن مرداس الدونقي‘‘ کا ترجمہ مجھے نہیں ملا۔[2] حالانکہ امرِ واقع یہ ہے کہ یہ طریق امام ابو الحسن کے زوائد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ المزی نے ’’تحفۃ الاشراف‘‘ (۳/۳۳۷،۳۳۸) میں اس سند کو ذکر نہیں کیا اور نہ ہی تہذیب میں ابو سعد عمیر کا ترجمہ ذکر کیا ہے، بلکہ عمیر کا ترجمہ الثقات لابن حبان (۸/۵۰۹)، الانساب للسمعانی (۲/۵۰۹)، تاریخ الاسلام للذہبی (۱۸/۴۱۰)، لسان المیزان (۴/۳۸۱) میں ہے، البتہ الثقات اور لسان المیزان میں نسبت ’’الزریقي‘‘ ہے، مگر یہ تصحیف ہے اور اس کی وضاحت الانساب سے ہو جاتی ہے۔ تاریخ الاسلام میں بھی ’’الدویقي‘‘ نسبت درست نہیں۔
|