اور فرمایا کرتے کہ تم نے یہ کرامت دیکھ لی۔ ہاتھ لاؤ عہد کرو کہ زندگی بھر اس کا کسی سے تذکرہ نہیں کرو گے۔ (الفتح الربانی)
غور فرمائیے! کجا اللہ والوں کا یہ انداز اور کجا آج کی ہوس رانی کی انتہا ’’اللّٰھم إِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا‘‘ مرزا غلام احمد قادیانی کا حیاتِ مسیح علیہ السلام سے انکار کا ایک سب سے بڑا سبب یہی معجزات سے انکار پر مبنی تھا۔ اسی لیے حضرت سیالکوٹی رحمہ اللہ نے مقدمہ میں اس کی ضروری توضیح بیان فرما دی، بلکہ قارئین کے لیے چونکا دینے والا یہ انکشاف بھی ساتھ ہی کر دیا کہ مرزا غلام احمد دعویٰ مسیحیت سے پہلے تو معجزات کا قائل تھا، بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کا بھی معترف تھا۔ جیسا کہ اس کی کتاب سرمہ چشم آریہ اور براہینِ احمدیہ سے ظاہر ہوتا ہے، لیکن جب مسیحیت کا دعویٰ کرنے کی سوجھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفع سماوی راستے سے حائل نظر آئی تو پٹڑی ہموار کرنے کے لیے جھٹ سے معجزات کا انکار کر دیا۔
حضرت مولانا سیالکوٹی نے لکھا ہے: ’’میں معجزات کے متعلق ان شاء اللہ ایک رسالہ لکھوں گا، جس میں زمانہ ماضی اور زمانہ حال کے فلاسفروں کے اقوال سے امکان ثابت کیا جائے گا۔‘‘[1] معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ رسالہ مولانا مکمل کر پائے تھے یا نہیں۔
مقدمہ ثانی میں منکرین معجزات کی سب سے بڑی دلیل ’’سنۃ اللہ‘‘ کی وضاحت ہے۔ منکرین کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ وہ کارخانہ قدرت میں ایک خاص نظام کو دیکھتے ہیں، مثلاً: انسان کا ماں باپ کے اختلاط سے شکمِ مادر سے پیدا ہونا۔ بچپن، جوانی، بڑھاپا زمین پر بسر کرنا، کھانا پینا اور حوائج ضروریہ سے دوچار ہونا اور بالآخر مر کر قبر میں دفن ہو جانا۔ اس نظام کو وہ ’’سنۃ اللہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور
|