احبابِ جماعت پر ایک دم سکتہ طاری ہو گیا، خاص کر حافظ فتحی صاحب کی حالت یہ خبر سنتے ہی قابلِ دید، آنکھوں سے آنسو اور زبان پر إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون!احبابِ جماعت کو صبر کی تلقین کر رہے تھے، نمازِ عشاء سے فارغ ہوتے ہی الشیخ فتحی صاحب، مولانا محمد حنیف، الشیخ عبدالرب، الشیخ محمد عبداللہ مفتی محمد شفیع کی معیت میں جدہ روانہ ہو گئے، ان کے بعد پروفیسر ظفر اللہ ان کے بھائی نور اللہ، مولوی محمد اسحاق اور میاں ارشد محمود بن میاں محمد یوسف فیصل آبادی (جو اس سال عمرہ کے لیے وہاں گئے تھے) بھی پہنچ گئے۔ ان کے بعد دیگر احباب بھی جدہ پہنچنے شروع ہو گئے……الخ۔‘‘
فوتگی کی اطلاع گورنمنٹ سعودی کو دی گئی، ان کے انتقال کی اطلاع متعلقہ افسر کو جدہ میں دی گئی، وہ معاملے کا جائزہ لینے کے لیے پہنچا، حضرت مولانا مرحوم کے جسدِ خاکی کو دیکھا تو مبہوت ہو کر رہ گیا، کہنے لگا: ’’یہ تو ایک اللہ کا ولی معلوم ہوتا ہے، آپ ان کے دفن کا جلد انتظام کریں۔ کوئی قانونی رکاوٹ ہو تو مجھے اطلاع دینا۔‘‘ چنانچہ تمام قانونی پیچیدگیوں کے بعد بالآخر ۸؍ شوال بمطابق ۱۸؍ جولائی سوموار بعد نمازِ مغرب المسجد الحرام میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور مکہ مکرمہ کے قدیم قبرستان جنت المعلیٰ میں سپردِ خاک کر دیا گیا، مولانا مرحوم کو سرزمینِ حجاز سے خاص انس و پیار تھا، بلکہ وہ تو عرب کے باشندوں سے بھی پیار کرتے تھے، اس سلسلے میں وہ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری مرحوم کا مقولہ بھی سناتے تھے کہ ’’عجم نے عرب کو رشتہ دیا ہے۔‘‘ جس میں اشارہ حبشہ میں حضرت امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کی طرف تھا، فرماتے: ’’اس اعتبار سے بھی عجم کو اہلِ عرب کی عزت کرنی چاہیے۔‘‘ یہی محبت دراصل انھیں کھینچ کر سرزمینِ حجاز لے گئی، جس پر یہ کہنا بجا طور پر صحیح ہو گا:
|