Maktaba Wahhabi

227 - 462
’’اکثر مشاہیر علم و ارشاد جیسے شیخ ابراہیم کورانی، محمد بن احمد سفارینی النجدی، سید عبدالقادر کوکبانی، شیخ عمر تیونسی، شیخ سالم بصری، امیر محمد بن اسماعیل یمانی، سید عبدالخالق زبیدی، علامہ فلانی صاحبِ ایقاظ، شیخ محمد حیات سندھی المدینی وغیرہم شاہ راہِ عام سے اپنی راہ الگ رکھتے تھے اور حقیقت مستورہ کے شناسا وحق آگاہ تھے۔‘‘[1] شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ (م۱۱۴۳ھ) کو حجازِ مقدس تشریف لے گئے اور مدینہ منورہ دو سال قیام فرمایا اس وقت علامہ سندھی مسندِ تدریس پر رونق افروز تھے۔ یہ ناممکن ہے کہ آپ علامہ سندھی رحمہ اللہ کے درس سے ناواقف رہے ہوں۔ علامہ سندھی کے علاوہ وہاں دیگر شیوخ عموماً شافعی المسلک تھے۔ غالب گمان یہی ہے کہ ان کے عقیدے میں بھی جو تبدیلی آئی وہ علامہ سندھی ہی کے اثر کا نتیجہ ہے گو انھوں نے یہ بات کہیں ظاہر نہیں کی۔ مگر علامہ سندھی کی تصانیف کا عکس شاہ صاحب کی بعض تصانیف میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے تلمیذِ رشید علامہ إلٰہ آبادی کا یہ قول تو آپ پڑھ چکے ہیں کہ ’’رستہ از حبسِ ربقہ تقلید‘‘ حضرت نواب صدیق حسن خاں مرحوم کی آرا بھی ملاحظہ فرما لیجیے، لکھتے ہیں: ’’تمام عمر در خدمت علمِ حدیث شریف صرف ساخت و تبحری عظیم دریں فن اشرف اندوخت و بمرتبہ اجتہاد برآمدہ وقلادہ تقلید از گلو فروا فگند۔‘‘[2] یعنی تمام عمر حدیث شریف کے علم کی خدمت میں صرف کر دی، اس پاکیزہ فن میں عظیم تبحر حاصل کیا اور قلادۂ تقلید پھینک کر درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے۔
Flag Counter