٭ اسی طرح اپنے پیٹ کی بھوک اور پیاس کو ختم کرنا تاکہ اس کا جسم مضبوط ہو اور وہ تسلسل کے ساتھ اللہ کے فرائض کو ادا کرتا رہے بھی ’ عبادت ‘ ہے۔ ٭ حتی کہ حلال طریقے سے اپنی شہوت کو پورا کرنا بھی ’ عبادت ‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (وَفِی بُضْعِ أَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ)’’ اور تم میں سے ایک کے جماع میں بھی صدقہ ہے۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا:ہم میں سے کوئی شخص اگر اپنی شہوت کو پوار کرے تو کیا اس میں بھی اسے اجر ملتا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تمھارا کیا خیال ہے ، اگر کوئی شخص اپنی شہوت کو حرام طریقے سے پورا کرے تو کیا اسے گناہ ہو گا ؟ ‘‘ پھر آپ نے فرمایا:’’ اسی طرح اگر وہ حلال طریقے سے اسے پورا کرے تو اسے یقینا ثواب ہو گا۔‘‘[1] ٭ اسی طرح لین دین اور کاروبار کے معاملات میں جھوٹ ، دھوکہ ، فراڈ اور خیانت وغیرہ سے بچنا بھی ’عبادت ‘ ہے۔ ٭ اسی طرح والدین سے حسن سلوک کرنا ، رشتہ داروں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنا ، بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا اور عام مسلمانوں سے محبت اور ہمدردی کرنا بھی ’ عبادت ‘ ہے۔ ٭ اسی طرح اچھی عادات کو اپنانا ، لوگوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا ، حُسن ِ خُلق کا مظاہرہ کرنا اور اچھی اور پاکیزہ گفتگو کرنا بھی ’ عبادت ‘ ہے۔ عزیزان گرامی ! اِس پوری تمہید سے ثابت ہوا کہ ’ عبادت ‘ اللہ تعالی کی بندگی کرنے کا نام ہے۔بندگی کس طرح ؟ اِس طرح کہ بندہ اُس کی فرمانبرداری کرے اور اس کی نافرمانی نہ کرے۔صرف وہ عمل سر انجام دے جو اُس کی منشاء کے مطابق ہو ، جس کو وہ پسند کرتا ہو اور جس سے اس کی رضا حاصل ہوتی ہو۔اور اُس عمل سے اجتناب کرے جو اس کی منشاء کے مطابق نہ ہو ، جس کو وہ پسند نہ کرتا ہو اور جس سے وہ ناراض ہوتا ہو۔ یہ سب کچھ وہ اس طرح کرے کہ اس کے دل میں اللہ تعالی کی سچی محبت ہو ، اس کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے اس کی اطاعت وفرمانبرداری کرے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانی سے اجتناب کرے۔ہر قسم کی عاجزی وانکساری کا اظہار صرف اللہ تعالی کیلئے کرے۔اور اپنی تمام تر امیدوں کا مرکز اسی کو بنائے۔ ٭ یہی وہ بندگی ہے کہ جس کو تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالی اِس کا تذکرہ یوں فرماتا ہے:﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً أَنِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ |