’’ جو آدمی جھوٹی قسم اٹھائے تاکہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کے مال پر قبضہ کر لے تو وہ اللہ تعالی کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔‘‘ [1] قسم کھانے سے مال تو فروخت ہو جاتا ہے لیکن اس کی برکت ختم ہوجاتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(اَلْحَلِفُ مُنَفِّقَۃٌ لِّلسِّلْعَۃِ وَمُمْحِقَۃٌ لِلْکَسْبِ) ’’ قسم سے سودا بک جاتا ہے اور کمائی(کی برکت)مٹ جاتی ہے۔‘‘[2] لہذا خرید وفروخت میں جھوٹی قسم کھانے سے بچنا چاہئے۔ 9۔ ماپ تول میں کمی کرنے سے بچنا اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا ﴾ ’’اور جب تم ماپ کرو تو پورا پورا ماپو اور تولو تو سیدھی ترازو سے تولو۔یہ اچھا طریقہ ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہتر ہے۔‘‘[3] اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا:﴿ وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ﴾ ’’ اے میری قوم ! ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی اشیاء کم نہ دیا کرو۔اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔‘‘[4] اِس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماپ اور تول میں کمی کرنا اور لوگوں کو ان کی چیزیں پوری پوری نہ دینا فسادفی الأرض ہے ، جوکہ حرام ہے۔اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ اِِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ ٭ وَاِِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ ﴾ ’’ ہلاکت وبربادی ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے۔جو جب لوگوں سے ماپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انھیں ماپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔‘‘[5] یعنی جن لوگوں نے دوہرا معیار اپنا رکھا ہے کہ جب لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب کوئی چیزدیتے ہیں تو ماپ تول میں ڈنڈی مارتے ہیں۔ایسے لوگوں کیلئے تباہی وبربادی ہے۔والعیاذ باللہ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے |