اور(اپنے حق کو)معاف کرنے والا ہو۔‘‘[1] بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ(إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ سَمْحَ الْبَیْعِ ، سَمْحَ الشِّرَائِ ، سَمْحَ الْقَضَائِ) ’’ بے شک اللہ تعالی اُس آدمی سے محبت کرتا ہے جو خرید وفروخت اور ادائیگی میں آسان ہو اور اپنے حق سے کم پر راضی ہوجانے والا ہو۔‘‘[2] نیز فرمایا:(أَدْخَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلًا کَانَ سَہْلًا مُشْتَرِیًا وَبَائِعًا وَقَاضِیًا وَمُقْتَضِیًا الْجَنَّۃَ) ’’ اللہ تعالی نے اس آدمی کو جنت میں داخل کردیا جو خرید وفرخت میں اور کسی کو اس کا حق ادا کرنے میں اور کسی سے اپنے حق کا تقاضا کرنے میں بہت آسان تھا۔‘‘[3] اسی طرح اخوت کے تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لین دین اور خرید وفروخت کے معاملات میں مومن اپنے بھائی کیلئے وہ چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہو اور وہ چیز نا پسند کرے جو اپنے لئے نا پسند کرتا ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ) ’’ تم میں سے کوئی شخص کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کیلئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘[4] لہذا خریدار اور بائع دونوں پر یہ بات لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کا فائدہ سوچیں اور ان میں سے کوئی بھی دوسرے کو نقصان پہنچانے کے درپے نہ ہو۔صرف اپنا فائدہ سوچنا ، خواہ دوسرے فریق کا نقصان کیوں نہ ہو ، یہ مومن کے شایان شان نہیں ہے اور اخوت وبھائی چارے کے سراسر خلاف ہے۔ صحیحین میں ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص نے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا۔اسے اس میں ایک ٹھلیا(گھڑا)ملا جس میں سونا رکھا ہوا تھا۔تو خریدار نے [ یہ نہیں سوچا کہ بس اب تو وارے نیارے ہو گئے ، اتنا سرمایہ ہاتھ لگ گیا، پتہ نہیں میں زندگی بھر اتنا کما سکتا یا نہیں ، بلکہ اس نے بائع سے کہا:اپنا سونا واپس لے لو ، کیونکہ میں نے تم سے صرف زمین خریدی ہے ، یہ سونا نہیں خریدا۔بائع نے کہا:میں نے تو زمین اور اس میں جو کچھ ہے سب تیرے ہاتھ فروخت کردیا ہے۔[ یعنی نہ خریدار سونا ساتھ لے جانے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی بائع اسے واپس لینے پر تیار ہے ، بلکہ دونوں کی |