اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی ٭ فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوَیٰ ﴾ ’’ اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہے اور اپنے آپ کو خواہش نفس سے روکے رکھے تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگا۔‘‘[1] اسی طرح فرمایا:﴿ وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰہَا ٭ فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا ٭قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا ٭ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا ﴾ ’’ اور نفس کی قسم اور جس نے اسے ٹھیک بنایا۔پھر اسے اس کی بدی اور اس کے تقوی کا الہام کیا۔یقینا وہ شخص کامیاب ہوا جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور وہ شخص نامراد ہوا جس نے اسے گھٹیا بنایا۔‘‘[2] 13۔ دنیا کی بے ثباتی پر یقین رکھنا اور اس سے دل نہ لگانا مسلمان کو اِس بات پر یقین کامل ہونا چاہئے کہ دنیا فانی ہے۔اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کے سامان کے اور کچھ نہیں۔کوئی اِس دنیا کو جنت سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے ، لیکن مومن کو اس کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے بلکہ اسے دنیا کو اپنے لئے جیل خانہ سمجھنا چاہئے۔جنت تو وہ ہے جو قیامت کے روز اہل ِ ایمان کو ملے گی۔اور وہ ایسی جنت ہے کہ جس کی نعمتوں کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے ، نہ کسی کان نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے اور نہ ہی کسی بشر کے دل میں اس کا تصور پیدا ہو سکا ہے۔ہر مسلمان کو اُس جنت کے حصول کیلئے رغبت پیدا کرنی اور اس کیلئے جد وجہد کرنی چاہئے۔اور اِس فنا ہونے والی دنیا سے نہ محبت کرنی چاہئے اور نہ ہی دل میں اسے جگہ دینی چاہئے۔ اِس سے اس کا دل نرم ہوگا اور اس میں اللہ تعالی کو راضی کرنے والے اعمال کی رغبت ومحبت پیدا ہوگی اور اللہ کو ناراض کرنے والے اعمال سے نفرت پیدا ہوگی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (مَنْ کَانَتِ الدُّنْیَا ہَمَّہُ فَرَّقَ اللّٰہُ عَلَیْہِ أَمْرَہُ ، وَجَعَلَ فَقْرَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ ، وَلَمْ یَأْتِہِ مِنَ الدُّنْیَا إِلَّا مَا کُتِبَ لَہُ ، وَمَنْ کَانَتِ الْآخِرَۃُ ہَمَّہُ جَمَعَ اللّٰہُ لَہُ أَمْرَہُ، وَجَعَلَ غِنَاہُ فِی قَلْبِہِ ، وَأَتَتْہُ الدُّنْیَا وَہِیَ رَاغِمَۃٌ) ’’ جس شخص کی سوچ وفکر کا محور دنیا ہی ہو تو اللہ تعالی اس کے معاملات کو بکھیر دیتا ہے اور اس کے فقر کو اس کی آنکھوں کے سامنے کردیتا ہے۔اور اسے دنیا سے اتناہی ملتا ہے جو اس کیلئے لکھا جا چکا ہے۔اور جس آدمی کی سوچ وفکر کامحور آخرت ہو تو اللہ تعالی اس کے معاملات کو سمیٹ دیتا ہے اور اس کے غنٰی کو اس کے دل میں رکھ دیتا ہے۔اور دنیا نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پاس چلی آتی ہے۔‘‘[3] |