’’ بے شک وہ(شیطان)اور اس کا قبیلہ تمھیں اُس جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھ سکتے۔‘‘[1] 3۔ شیطان اکیلا نہیں بلکہ جن وانس میں سے اس کا ایک بہت بڑا لشکر ہے جو اس کی مدد کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ﴾ ’’اوراسی طرح ہم نے شیطان صفت انسانوں اور جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا جو دھوکہ دینے کی غرض سے کچھ خوش آئند باتیں ایک دوسرے کو سجھاتے رہتے ہیں۔‘‘[2] اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ ﴾ ’’بلا شبہ شیطان تو اپنے دوستوں کے دلوں میں(شکوک وشبہات)القاء کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑتے رہیں۔‘‘[3] اِن دونوں آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان کے اعوان ومددگار بہت زیادہ ہیں۔وہ ان سے بہت سارے کام لیتا ہے۔انسان کو گمراہ کرنے کے مختلف طریقے آزماتا اور انھیں اللہ تعالی سے دور کرتا ہے۔اس کی تائید اِس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ابلیس اپنا عرش پانی پر رکھتا ہے، پھر اپنی فوجیں اِدھر اُدھر بھیج دیتا ہے اور ان میں سے سب سے زیادہ معزز اس کے لئے وہ ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ بپا کرتا ہے۔چنانچہ ایک شیطان آتا ہے اور آکر اسے بتاتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا ہے۔تو ابلیس اسے کہتا ہے:تم نے کچھ بھی نہیں کیا۔پھر ایک اور آتا ہے اور کہتا ہے: (مَا تَرَکْتُہُ حَتّٰی فَرَّقْتُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ امْرَأَتِہِ)’’ میں نے آج فلاں آدمی کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہیں ڈال دی۔‘‘ تو ابلیس اسے اپنے قریب کر لیتا ہے(اور ایک روایت کے مطابق اسے اپنے گلے لگا لیتا ہے)اور پھر اسے مخاطب ہو کر کہتا ہے:تم بہت اچھے ہو۔‘‘[4] 4۔ شیطان ہر وقت ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کو گمراہ کرنے یا اللہ کی عبادت سے دور کرنے کیلئے گھات لگا کر بیٹھا رہتا ہے۔اورجیسے ہی اسے موقعہ ملتا ہے تووہ اسے اپنے شکنجے میں پھنسا لیتا ہے۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:﴿قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ٭ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ |