خلافت کا سب سے پہلا حقدار ہے۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیمار پڑ گئے ، پھر جب آپ کا مرض بہت حد تک بڑھ گیا تو آپ نے فرمایا:(مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ)’’ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘[1] بلکہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مرض الموت میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کی۔یعنی ابو بکر رضی اللہ عنہ امام تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی تھے۔[2] اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ آنے کا حکم دیا۔اس نے پوچھا:اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(إِنْ لَّمْ تَجِدِیْنِیْ فَأْتِیْ أَبَا بَکْرٍ)’’اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آنا۔‘‘[3] یہ حدیث واضح دلیل ہے اس بات پر کہ خلافت کے سب سے پہلے حقدار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض(الموت)میں مجھ سے کہا: (أُدْعِی لِی أَبَا بَکْرٍ وَأَخَاکِ حَتّٰی أَکْتُبَ کِتَابًا ، فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ یَّتَمَنّٰی مُتَمَنٍّ وَیَقُوْلَ قَائِلٌ:أَنَا أَوْلٰی ، وَیَأْبَی اللّٰہُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ إِلَّا أَبَا بَکْرٍ) ’’ جاؤ ابو بکر اور اپنے بھائی کو بلا کر لاؤ تاکہ میں ایک دستاویز لکھ دوں کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا شخص تمنا کرے اور کوئی کہنے والا یہ کہے کہ میں(خلافت کا)زیادہ حقدار ہوں۔جبکہ اللہ اور تمام مومنین ابو بکر کے سوا کسی پر راضی نہیں ہو نگے۔‘‘[4] ان تمام احادیث میں واضح اشارے موجود ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے سب سے زیادہ حقدار جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت کی گواہی دیتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح اشاروں کے ساتھ ساتھ خود صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں بھی انھیں سب سے افضل گردانا جاتا تھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دیتے |