اور فرمایا:﴿ وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا ﴾’’اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے۔ ‘‘[1] صفاتِ عالیہ کے اثبات کیلئے چند ضروری امور اللہ تعالیٰ کی صفاتِ عالیہ کو ثابت کرتے ہوئے پانچ امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے: 1۔قرآن مجید اور حدیث پاک میں وارد شدہ تمام صفات کو اللہ تعالیٰ کیلئے حقیقی طور پر ثابت کرنا۔ 2۔اس بات پر پختہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ تمام کامل صفات سے متصف ہے اور تمام عیوب ونقائص سے مبرا ہے۔ 3۔اللہ تعالیٰ کی صفات اور مخلوقات کی صفات میں کسی قسم کی مشابہت نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ پاک ہے، اس جیسی کوئی چیز نہیں، نہ اس کی صفات میں اور نہ اس کے افعال میں۔ 4۔اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے ان صفات کی کیفیت معلوم کرنے کا تکلف کرنا یا بیان کرنا مخلوق کیلئے قطعا درست نہیں۔ 5۔ان صفات پر مرتب ہونے والے احکام اور آثار پر ایمان لانا۔ ان پانچ امور کی وضاحت کیلئے ہم اللہ تعالیٰ کی صفت ’’الاستواء‘‘ سے مثال بیان کرسکتے ہیں۔ لہذا اس صفت میں ان چیزوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے: 1۔شرعی نصوص میں صفت ’’استواء‘‘ وارد ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔لہذا اس صفت کو اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت کرنا اور اس پر ایمان لاناضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ اَلرَّحْمٰنُ عَلیَ الْعَرْشِ اسْتَوَیٰ ﴾’’ رحمن عرش پر مستوی ہے‘‘[2] 2۔صفت ’’استواء‘‘ کو اللہ تعالیٰ کیلئے ایسے کامل طریق پر ثابت کرنا جس کا وہ مستحق ہے۔اور اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر حقیقی طور پر بلند ہے جیسا کہ اس کے شایان شان ہے۔ 3۔اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کو مخلوقات کے مستوی ہونے سے تشبیہ نہ دینا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عرش سے بے پرواہ ہے اور وہ اس کا محتاج نہیں ہے۔ 4۔اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت میں غور وفکر نہ کرنا، کیونکہ یہ ایک غیبی معاملہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے:(الإستواء معلوم ، والکیف مجہول، |