تویہودی عالم نے یہ بات کیوں کہی تھی کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو یوم عید تصور کرکے اس میں خوشیاں مناتے ؟ اس لئے کہ وہ دین کے مکمل ہونے کی قدروقیمت کو جانتا تھا جبکہ بہت سارے مسلمان اس سے غافل ہیں اور ایسے ایسے امور میں منہمک اور مشغول ہو کر رہ گئے ہیں کہ جنھیں وہ دین کا حصہ تصور کرتے ہیںحالانکہ دین ان سے قطعی طور پر بری ہے ۔ (۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر خیر کا حکم دے دیا تھا یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ اللہ کا یہ مکمل دین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور بلا ریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی امت تک مکمل طور پر پہنچا دیا تھا۔ ارشاد نبوی ہے :(( مَا تَرَکْتُ شَیْأً یُقَرِّبُکُمْ إِلَی اللّٰہِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ النَّارِ إِلَّا أَمَرْتُکُمْ بِہٖ،وَمَا تَرَکْتُ شَیْئاً یُقَرِّبُکُمْ إِلَی النَّارِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ اللّٰہِ إِلَّا وَنَہَیْتُکُمْ عَنْہُ [1])) ’’ میں نے تمھیں ہر اس بات کا حکم دے دیا ہے جو تمھیں اللہ کے قریب اور جہنم سے دور کردے ، اور تمھیں ہر اس بات سے روک دیا ہے جو تمھیں جہنم کے قریب اور اللہ سے دور کردے۔ ‘‘ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :(( مَا بَقِیَ شَیْئٌ یُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَیُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ إِلَّا وَقَدْ بُیِّنَ لَکُمْ )) [2] ’’ ہر وہ چیز جو جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی ہے اسے تمھارے لئے بیان کردیا گیا ہے ۔ ‘‘ نیز فرمایا :(( مَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا أَمَرَکُمُ اللّٰہُ بِہٖ إِلَّا قَدْ أَمَرْتُکُمْ بِہٖ ، وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا نَہَاکُمْ عَنْہُ إِلَّا قَدْ نَہَیْتُکُمْ عَنْہُ)) [3] ’’ اللہ تعالیٰ نے تمھیں جن کاموں کا حکم دیا ہے میں نے بھی ان سب کا تمھیں حکم دے دیا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے تمھیں جن کاموں سے منع کیا ہے میں نے بھی ان سب سے تمھیں منع کردیا ہے ۔ ‘‘ ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر وبھلائی کا کوئی ایساکام نہیںچھوڑا جس کا آپ نے امت کو حکم نہ دیا ہو۔ اور شر اور برائی کا کوئی عمل ایسا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے امت کو روک نہ دیا ہو ۔ |