ہیں کہ عقلمند عالم کی صفت جسے اللہ تعالیٰ نے دینی بصیرت اور علم کی دولت سے نوازا ہو یہ ہے کہ جدال (بے سود مناظرہ اور کٹھہ حجتی) اور لڑائی نہ کرے اور علم سے اسی پر غالب ہونے کی کوشش کرے جو علم شافی سے مغلوب کئے جانے کے قابل ہو لیکن اس کے لیے کبھی کبھی بے ساختہ مناظرے کی ضرورت آجاتی ہے، کیونکہ دانشور عالم کی صفت یہ ہے کہ وہ نفس پرستوں کے ساتھ بیٹھک نہیں لگاتا اور نہ ان سے مناظرہ کرتا ہے، لیکن علم و فقہ اور دیگر تمام احکام میں ایسا نہیں ہے۔
اور ایسے ہی جدل و مناظرہ سے دور رہنا چاہیے جس سے روکا گیا ہے اور جس کے برے انجام کا خوف ہے، جس سے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے اور جس سے مسلم علماء و ائمہ نے بھی ڈرایا ہے۔[1]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص سچا ہونے کے باوجود بحث و تکرار نہ کرتا ہو اللہ اس کے لیے وسط جنت میں ایک مکان بنائے گا۔
اور مسلم بن یسار رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ تم بحث و تکرار سے پرہیز کرو اس لیے کہ یہ عالم کی جہالت کا وقت ہوتا ہے اور اس سے شیطان اس کی غزش ڈھونڈتا ہے۔
اور حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے کسی فقیہ کامل کو بحث و تکرار کرتے نہیں دیکھا۔
اور انہوں نے ہی فرمایا کہ مومن دلجوئی کرتا ہے، بکواس اور لڑائی نہیں کرتا۔ وہ اللہ کی حکمت پھیلاتا ہے اگر وہ حکمت قبول کرلی جائے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر ٹھکرا دی جائے تو اللہ کی حمد کرتا ہے۔
امام محمد حسین فرماتے ہیں کہ حکماء کا خیال ہے کہ زیادہ تر تکرار بھائیوں کے دلوں کو بدل دیتی ہے اور الفت کے بعد جدائی اور انسیت کے بعد وحشت کا وارث بنا دیتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں وارد ہے کہ کوئی قدم ہدایت پر رہنے کے بعد بے
|