Maktaba Wahhabi

64 - 665
درجے کا تھا۔اس کی مثال یہاں بیان کی جاتی ہے۔طلباء کے کھانے کا اہتمام جن صاحب کے ہاتھ میں تھا، ایک دن انھوں نے نماز عصر کے بعد میاں صاحب سے کہا کہ آج طلباء کے لیے نہ آٹا ہے اور نہ خریدنے کے لیے کوئی پیسا۔میاں صاحب نے جواب دیا، اس کی فکر نہ آپ کو کرنا چاہیے نہ مجھ کو، جس کے یہ بندے ہیں، وہی ان کے کھانے دانے کا انتظام کرے گا۔وہ صاحب مایوسانہ صورت میں چلے گئے۔ابھی وہ مسجد سے نکلے ہی تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے پانچ روپے میاں صاحب کی خدمت میں پیش کیے۔میاں صاحب نے فوراً مہتمم کے پیچھے ایک طالب علم کو بھیجا کہ انھیں بلا لائے۔وہ آئے تو انھیں پانچ روپے دیے اور وہ طلبا کے کھانے پینے کا سامان لینے بازار چلے گئے۔اس انتہائی سستے زمانے میں جب کہ گندم بارہ آنے من تھی، پانچ روپے کو اچھی خاصی رقم سمجھا جاتاتھا۔ میاں صاحب کو کبھی یہ فکر لاحق نہیں ہوا کہ مسجد کا انتظام کیسے چلے گا، مدرسےکے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے، طلبا کی خوراک کا بندوبست کس طرح ہوگا۔ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ سب کچھ فراہم کردیتاتھا۔حصول علم کے لیے ان کی خدمت میں دوردراز کے علاقوں(بلکہ ملکوں) سے طلبا آتے تھے اور سب کی ضرورتیں پوری ہورہی تھیں اور تعلیم کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہتا تھا۔اس زمانے کے طلباء نے آگے چل کر عالی قدر علماء کی حیثیت سے شہرت پائی اور خلق خدا کو مستفیدفرمایا۔کسی نے تدریسی خدمات سرانجام دیں، کسی کو تصنیف وتالیف اور وعظ وتقریر میں امتیاز حاصل ہوا اور متعدد حضرات بیک وقت مدرس بھی ہوئے، مصنف بھی ہوئے، واعظ بھی ہوئے اور مقرربھی۔۔۔!یعنی ایک ہی عالم بہت سے اوصاف کے مالک ہوئے۔لوگ نہایت احترام سے ان کا نام لیتے ہیں اور لیتے رہیں گے، ان شاء اللہ العزیز۔ مجاہدہ نفس یوں تو حضرت میاں صاحب کی تمام زندگی مجاہدہ نفس سے تعبیر تھی، جس کا اندازہ صفحات سابقہ میں مندرج واقعات سے ہوجاتا ہے۔لیکن یہاں ایک دو واقعات اور سن لیجئے۔صبح گیارہ بجے تک قرآن وحدیث کے درس میں اس طرح مصروف رہتے کہ پہلو تک نہ بدلتے۔چہرے پر دھوپ آجاتی مگر پیشانی پر بل نہ آتا۔مولانا شریف حسین مرحوم کی امامت میں نصف گھنٹا نماز میں لگ جاتا جو بجائے خود ایک مستقل ریاضت تھی یا مجاہدہ نفس۔پھر یہ بات صوفیہ کی اصطلاح میں ایک چلے یا دو چلّے کی نہ تھی بلکہ عنفوان شباب سے شروع ہوکر آخری عمر تک جاری رہی۔ایک بجے شب سے بیداری اور قیام لیل(تہجد) میں کبھی ناغہ نہ ہوا۔
Flag Counter