Maktaba Wahhabi

624 - 665
7۔۔۔ڈاکٹر عبدالفتاح عاشور(مصر) 8۔۔۔ڈاکٹر سید عبدالمنعم نجم (مصر) 9۔۔۔شیخ محمد علی الجامی (عمید الکلیہ ) 10۔۔۔ڈاکٹر السید الوکیل (سعودی عرب) 11۔۔۔شیخ حبیب اللہ عبدالقادر سندھی میرٹ پر پورا آنے کے باوجود جب مولانا صلاح الدین کو کسی وجہ سے مدینہ یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ نہ ملا اور پھر جامعہ ام القریٰ بھی یہی صورتحال پیش آئی تو شیخ عبدالعزیز بن باز نے دارالافتاء کی طرف سے پیرس میں ان کی تقرری کردی۔ لیکن مولانا مختار احمدندوی نے ان کو بتائے بغیر اپنے ہاں جامعہ محمدیہ (مالیگاؤں، ہندوستان)میں ان کا تبادلہ کرا لیا۔اسی اثناء میں ان کے کچھ دوست کویت سے مدینہ منورہ گئے اور انھیں معاملے کا علم ہوا تو انھوں نے ان کو ہندوستان جانے کے بجائے کویت جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ یہ اپنے دوست اور کویت کے مشہور محقق شیخ بدر عبداللہ البدر اور ڈاکٹر فلاح ثانی السعیدی (استاذ کویت یونیورسٹی) کی کوششوں سے17فروری 1982؁ءکوکویت پہنچ گئے اور وہاں کا ماحول انھیں بہت پسند آیا۔ کویت میں وزارت اوقاف کے شعبہ مساجد میں ان تقرر ہوا۔ اذان، امامت اور خطابت کی ذمہ داری ان کے سپرد ہوئی۔ یہ سلسلہ فروری 1982؁ءسے 2۔اگست1990؁ء(یعنی کویت پر عراقی قبضے) تک آٹھ سال جاری رہا۔ اس اثناء میں چھوٹی بڑی چند کتابوں کی تحقیق کاکام بھی ہوتا رہا۔ دو کتابیں خاص طور سے تصنیف کیں۔ ایک کتاب کانام ہے”زوابع فی وجہ السنۃ قدیماً و حدیثاً“ اور دوسری کتاب ہے”دعوۃ شیخ الاسلام ابن تیمیہ واثر ھا فی الحرکات الاسلامیۃ المعاصرۃ۔“ کویت پر عراقی قبضے کے بعد مولانا صلاح الدین دہلی چلے گئے۔وہاں ہندوستان کے مشہور عالم مولانا عبدالمجید رحمانی نے ان کی خدمات اپنے ادارے”ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر“کے لیے حاصل کر لیں۔ وہاں انھیں سنٹر کی”اسلامک ریسرچ اکیڈمی“کے نگران مقرر کیا گیا۔ ان کی مذکورہ بالا دونوں کتابیں سب سے پہلے اسی سنٹر کی طرف سے شائع ہوئیں۔ امام ابن تیمیہ کے دفاع کے سلسلہ کا شعری مجموعہ”الحمیۃ الا سلامیہ“بھی اولین مرتبہ ان کی تحقیق سے یہیں چھپا۔ مولانا عبدالحمید رحمانی کا جاری کردہ ماہنامہ”التوعیہ“(دہلی) مضامین و مندرجات کے لحاظ سے بہت اچھا رسالہ تھا۔ اس میں عورتوں اور بچوں سے متعلق مولانا صلاح الدین کے کالم چھپتے رہے۔ قیام دہلی کے زمانے ہی میں انھوں نے سید بدیع الدین شاہ راشد ی کی کتاب ”انماء الزکن“
Flag Counter