حافظ محمد سلیمان انصاری صاحب اور علیم ناصری صاحب سے ہوئی جوہفت روزہ ”الاعتصام“ لاہور سے منسلک تھے، جن کی نگارشات سے میں”الاعتصام“ کے ذریعے مستفید ہوتا رہا تھا، ان سے ملاقات کرکے دل کو بڑی مسرت حاصل ہوئی۔خاص کر مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب سابق مدیر الاعتصام سے ملاقات میرے لیے بہت زیادہ خوشی کا موجب ہوئی۔میں زمانہ طالب علمی ہی سے”الاعتصام“ کا خریدار تھا اور اس دور میں بھٹی صاحب کے اداریے الاعتصام میں بہت شوق وعقیدت سے پڑھتا تھا، اب حافظ احمد شاکر صاحب کی مہربانی سے مجھے مولانا بھٹی کے دیدار وملاقات کا شرف حاصل ہوگیا تو بہت خوشی ہوئی۔[1] ”کویت وپاکستان کا سفر“کے عنوان سے ان کی تحریر صفحہ 273سے چلتی ہے اور صفحہ 283پرختم ہوتی ہے۔ان صفحات میں کویت اور پاکستان کی متعدد شخصیات سے ملاقات کا ذکر کیاگیا ہے۔ 13۔بڑے بڑے گناہ:ان کی یہ تصنیف فردوس پبلی کیشنز نئی دہلی سے شائع ہوئی۔ 14۔مکاتیب حضرت شیخ الحدیث :یہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ رحمانی مبارک پوری کے مکتوبات گرامی ہیں جوحضرت مرحوم نے مختلف اوقات میں مولانا عبدالسلام رحمانی کے نام لکھے۔یہ مجموعہ خالص علمی نوعیت کا ہے اور120 مکتوبات پر مشتمل ہے۔بہت دلچسپ مجموعہ ہے۔آخر میں دس بزرگان دین کی تحریروں کا عکس شائع کیا گیا ہے، جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں:1۔حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی۔2۔حضرت شیخ حسین بن محسن انصاری۔3۔حضرت مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری، 4۔حضرت مولانا عبدالسلام مبارک پوری۔5۔حضرت مولانامحمد اسماعیل سلفی۔6۔حضرت مولاناعطاء اللہ بھوجیانی۔7۔حضرت مولانا عبیداللہ رحمانی مبارک پوری۔8۔حضرت مولانا نذیر احمد رحمانی املوی۔9۔حضرت مولانا محمداقبال رحمانی اور۔10۔حضرت مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری۔اب مولانا عبدالسلام رحمانی کی غیر مطبوعہ تحریرات کی طرف آئیے۔ 1۔تذکار الصناوید فی ترجمۃ اصحاب الصحاح والمسانید:یہ کام انھوں نے جامعہ رحمانیہ(بنارس) کی طالب علمی کے آخری سال کیا۔اس میں تمام اصحاب اوراصحابِ مسانید کے حالات مرقوم ہیں۔بعض اہل علم نے ابن ماجہ کی بجائے مؤطا امام مالک کو صحاح ستہ میں شامل کیاہے، اس لیے امام مالک کے حالات بھی مولانا نے اس کتاب میں تحریر کردیے ہیں۔اصحابِ مسانید کے ضمن میں تین ائمہ(امام ابوحنیفہ، امام شافعی، اورامام احمد بن حنبل) کے حالات رقم کیے گئے ہیں۔امام |