Maktaba Wahhabi

601 - 665
پڑا۔الدارالقیمہ میں انھوں نے 9۔شوال 1383ھ( 24۔فروری 1964ء) کو کام شروع کیا تھا۔25۔ذیقعدہ 1385ھ(18۔مارچ 1966ء) کو اس خدمت سےالگ ہوئے۔اس عرصے میں تحفۃ الاشراف کی پہلی جلد چھپ گئی تھی اور دوسری جلد کی تحقیق وتعلیق کا کام آخری مرحلے میں تھا۔اسی زمانے میں مولانا ابوالاشبال صغیراحمد شاغف وہاں تشریف لے گئے تھے اور یہ دونوں اس اہم تریں کام میں مصروف تھے۔ اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مولانا عبدالسلام رحمانی کے لیے خدمت دین کا ایک اور دروازہ کھلتا ہے اور وہ تدریس کی وادی میں داخل ہوتے ہیں، جس کی تکمیل تعلیم کے بعد سے انھیں شدید خواہش تھی۔20۔مارچ 1966ء( 27 ذیقعدہ 1385ھ) کو جامعہ سلفیہ بنارس کے تعلیمی افتتاح کی تقریب تھی۔وہ الدارالقیمہ بھیمبڑی سے استعفیٰ دے کر اس تقریب میں شرکت کے لیے بنارس گئے۔جامعہ رحمانیہ(بنارس) کے متعدد اساتذہ اس نئے مرکزی دارالعلوم یعنی جامعہ سلفیہ میں منتقل کردیے گئے تھے۔اس لیے جامعہ رحمانیہ میں ان کی جگہ نئے اساتذہ کی ضرورت تھی۔مولانا عبدالسلام رحمانی اسی جامعہ کے فارغ التحصیل تھے اور جامعہ کی مجلس منتظمہ کے ارکان ان سے واقف تھے۔چنانچہ جامعہ رحمانیہ کے عربی شعبے میں تدریس کے لیے ان کی تقرری ہوگئی اور وہ 23۔ذی الحجہ 1385ھ(15۔اپریل 1966ء) سے 15۔شعبان 1392ھ(24۔ستمبر 1972ء) تک تقریباً سات سال وہاں فریضہ تدریس انجام دیتے رہے۔سات سال کی اس طویل مدت میں انھوں نے اس وقت کی جمعیت اہلحدیث ہند کے ناظم اعلیٰ مولانا عبدالجلیل رحمانی کے حسب ارشاد جنوبی ہند کے مختلف شہروں کادورہ کیا اور رمضان 1389ھ(دسمبر 1969ء) میں علاقہ کوکن کے دورے پر روانہ ہوئے۔ان دوروں کا تعلق جماعتی تنظیم سے تھا۔ جامعہ رحمانیہ بنارس کی تدریس کے زمانے میں ان کو گھریلو عربی زبان سے شناسائی کا بہترین موقع ملا۔جامعہ سلفیہ(بنارس) کے قیام کے بعدجامعہ اسلامیہ(مدینہ منورہ) کی طرف سے اس میں طلباء کو پڑھانے کے لیے دوسعودی اساتذہ(شیخ زبیع اورشیخ ہادی) کا تقررعمل میں آیاتھا۔وہ دونوں شوال 1389ھ میں اپنے اہل وعیال سمیت بنارس آئے۔ان دونوں اساتذہ سے مولانا عبدالسلام رحمانی کے اچھے مراسم تھے، چنانچہ زبیع نے اپنے بیٹے عبدالکریم کو اور شیخ ہادی نے اپنے بیٹے محمد کو ان کی شاگردی میں دے دیا اور وہ دونوں لڑکے روزانہ نمازِعصر کے بعد ان سے تعلیم حاصل کرنے لگے۔یہ سلسلہ آٹھ مہینے جاری رہا اور مولانا عبدالسلام کو زندگی میں پہلی مرتبہ عرب بچوں کی گفتگو سننے اورجاننے کا موقع ملا۔ جامعہ رحمانیہ(بنارس) کی سات سالہ تدریس کے بعد ان کی تگ وتاز کا ایک اور دور آتا ہے،
Flag Counter