Maktaba Wahhabi

540 - 665
بہت خوش ہوئے اوراس کے نیچے تقریظ لکھی اور اس پر مہرثبت فرمائی۔ 1352؁ھ(1963) کی سالانہ تعطیلات میں حافظ عبدالمنان جامعہ قدس( لاہور) میں حضرت حافظ عبداللہ روپڑی کے دورۂ تفسیر میں شامل ہوئے اورقرآن کی تفسیر کے سلسلے میں ان سے استفادہ کیا۔اسی سال کے شعبان کی بات ہے کہ حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی نے صبح کے درس قرآن کے سالانہ امتحان کے نتائج کا اعلان فرمایا تو گوجرانوالہ کی جماعت کے ایک بزرگ حاجی محمد یوسف سوتری والے نے کہا کہ امتحان میں اوّل آنے والے طالب علم کو وہ پچاس روپے انعام دیں گے۔حافظ عبدالمنان صاحب امتحان میں اوّل آئے اورحاجی محمد یوسف صاحب نے مولانا محمد اسماعیل سلفی کی وساطت سے ان کو پچاس روپے انعام دیے۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا اور مولانا عبداللہ گجراتی نے جامع مسجد اہلحدیث(دال بازار، گوجرانوالہ) میں”دارالحدیث مدینۃ العلم“ کے نام سے اپنا الگ دارالعلوم جاری کرلیا۔اس میں حضرت حافظ محمد گوندلوی اور بعض دیگر حضرات کی خدمات بھی حاصل کرلی گئیں۔اس دارالعلوم میں حافظ عبدالمنان نوری پوری نے بھی داخلہ لے لیا۔فیصلہ یہ ہوا کہ ابتدائی درجوں کے طلباء کو حافظ صاحب ابتدائی کتابیں پڑھایا کریں گے اورخود حضرت حافظ صاحب گوندلوی سے صحیح بخاری پڑھیں گے۔چنانچہ اس فیصلے کے مطابق عمل کا آغاز ہوگیا۔اس دارالعلوم کی انتظامیہ کا نام”اخوانِ اہلحدیث“ رکھا گیا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک بزرگ حاجی غلام محمد رنگ والے نے دارالعلوم کے لیے جی ٹی روڈ پر ایک ایکڑ زمین دے دی اور وہاں چند کمرے تعمیر کرکے تدریس کاسلسلہ شروع کردیاگیا۔اب دال بازار کی مسجد سے دارالعلوم وہاں چلا گیا اور اس کا نام”دارالحدیث مدینۃ العلم“ کے بجائے حضرت حافظ صاحب گوندلوی کی تجویز سے” جامعہ شرعیہ“رکھا گیا۔20 فروری 1968ء؁ کو حضرت مولانا محمد اسماعیل وفات پاگئے تو جامعہ شرعیہ کو مدرسہ محمدیہ میں مدغم کردیاگیا اور اسے جامعہ شرعیہ کے بجائے”جامعہ محمدیہ“ کہا جانے لگا۔یعنی جامعہ شرعیہ ختم کردیاگیا۔ فیصلہ کیاگیا کہ حفظ وتجوید اور ناظرہ قرآن کا شعبہ بدستور مدرسہ محمدیہ چوک نیائیں میں رہے گا اور درس نظامی کا شعبہ جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ میں چلا جائے گا۔جامعہ محمدیہ(جی ٹی روڈ) میں اساتذہ تھے خود مولانا عبداللہ گجراتی، مولانا ابوالحسن جمعہ خاں ہزاروی، مولانا بشیر الرحمٰن نور پوری اور حافظ عبدالمنان نور پوری!مدرسہ چوک نیائیں کے اساتذہ تھے۔ شیخ الحدیث مولانا عبدالحمید ہزاروی، حافظ عبدالسلام بھٹوی اورمولانا حافظ محمد رفیق جھجھوی۔کچھ عرصے کے بعد حافظ عبدالسلام بھٹوی نے استفادے کرکے مدرسہ محمدیہ سے علیحدگی اختیار کرلی اور مولانا جمعہ خاں ہزاروی وفات
Flag Counter