Maktaba Wahhabi

52 - 665
میں آئے جو قرآن و حدیث کی اشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے۔میاں صاحب نے ستر برس تک قرآن و حدیث کا درس دیا اور لاتعداد لوگوں نے ان سے استفادہ کیا اور پھر آگے چل کر ان لوگوں نے مختلف مقامت پر تدریس کے حلقے قائم کیے اور لوگوں کو کتاب و سنت کی تعلیم سے روشناس کرایا۔ان کے شاگردوں کا حصر ممکن نہیں۔ میاں صاحب درویش منش عالم تھے۔ انھوں نے دہلی میں اپنی تعلیم رسمیہ مکمل کی اور پھر دہلی ہی میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا جو زندگی کے آخری دم تک جاری رہا۔ انھوں نے کہیں ملازمت نہیں کی، کسی کے دست نگر نہیں ہوئے، کوئی دولت جمع نہیں کی، کبھی کسی سرمایہ دار کے دروازے پرنہیں گئے، کوئی سرکاری عہدہ قبول نہیں کیا ، قاضی القضاۃ کا منصب پیش کیا گیا، اسے بھی ٹھکرا دیا۔ کسی کی مخالفت کی کبھی پروانہیں کی۔ علم کو کسی وقت بھی ذریعہ معاش نہیں بنایا، غربت کی زندگی بسر کرتے رہے، فاقوں پر فاقے آئے مگر دلّی کو نہیں چھوڑا اور جس مقام پر حضرت استاذ شاہ محمد اسحاق صاحب نے بٹھا دیا، تمام عمروہیں بیٹھے رہے۔اس شہر میں بے پناہ اثر ورسوخ کے باوجود اپنا ذاتی مکان نہیں بنایا۔آخر وقت تک کرائے کے مکان میں رہے۔قابل ترین تلامذہ اور جلیل القدر علمائے دین کی اتنی تعداد اپنے بعد چھوڑی کہ جس کو گنتی شمار میں لانا ممکن نہیں۔ ان کی تدریسی مساعی کی وجہ سے برصغیر کے اہل علم میں قرآن و حدیث کے تراجم کا شوق پیدا ہوا، تفاسیر قرآن اور شرح حدیث کے ذوق نے کروٹ لی، مسجدیں تعمیر اور آباد ہوئیں، لوگوں نے راہ سنت کو اپنایااور جگہ جگہ مدارس قائم کیے۔ بے شک یہ سب کوششیں اور تمام تگ و تاز اس حقیقت پر دلالت کناں ہیں کہ حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے مجدد تھے اور ان کی تجدید دین کے آثار پوری اسلامی دنیا پر بالعموم اور برصغیر پاک و ہند پر (جس میں بنگلہ دیش بھی شامل ہے) بالخصوص نمایاں تھے۔ پیکر حسنات جیسا کہ گزشتہ صفحات سے ہمیں معلوم ہوا، حضرت میاں صاحب کی زندگی کے لیل و نہار حسنات سے عبارت اور اعمال خیر کے حسین ترین قالب میں ڈھلے ہوئے تھے۔ طہارت دیا پاکیزگی ان کا شیوہ اور عبادت الٰہی ان کا معمول تھا۔عفوو در گزر ان کا خاصہ حیات اور سخاوت و جودت ان کا شب و روز کا مشغلہ تھا۔زہد وقناعت ان کا پیشہ تھا اور انکسار وتواضع ان کی طبیعت ثانیہ بن گئی تھی۔ مخمل و رفق ان کا لازمہ زندگی اور خدمت خلق ان کا سرمایہ عمل تھا۔ صبر ان کا جزوِ حیات اور اعتدال ان کا رفیق سفر تھا۔ حیا کو ان کے متاع زیست کی حیثیت حاصل تھی اور شاكر اًلانعمه کی وہ خوب صورت
Flag Counter